Hai azal se matti ki dushman khud matti Article by Hafiza Khansa Akram,

ہے ازل سے ہی مٹی کی دشمن خود مٹی۔۔!!

حافظہ خنساء اکرم

 

جب کبھی ماضی کے در وا کر کے کچھ ساعت قصۂ پارینہ بن جانے والی ہستیوں کے قبرستانوں میں دم لیا جائے تو نہ صرف صبح کے حسیں ماتھے پر تاریکی کا جھومر بن جانے والوں  کی جبل٘ت آشکار ہوتی ہے بلکہ دشمن کی اپنے مقصد کے ساتھ سنجیدگی اور دور اندیشی دیکھ کر ایک تعریفی آہ روح کے خارزاروں سے  باہر نکلتے ہوئے ہمارے غرور و نخوت کے وجود کو خس و خاشاک کی مانند بہا لے جاتی ہے۔

ہم ازل سے  قرآن کے متوالی بن کر بھی  دشمن کے ہاتھوں میں اتنی خامشی و آسانی سے استعمال ہو گئے۔۔۔!!۔

کہ صدیاں ابھی تک ورطۂ حیرت میں  غوطہ ٔزن اس رمز کو پانے کے لیے  غور فکر میں مبتلا ہیں کہ موجودہ حالات کے لیے تشکیل کردہ مسلم معاشرہ کن اساسوں پر اپنی عمارت قائم کرے گا؟

 

دشمن نے ہمارے ایمان، عقائد و اعتقاد کے ساتھ ساتھ ہمارے اخلاق و اخلاص، تہذیب و  ثقافت اور روایات  پر بھی گہری نقب لگائی تھی ۔ اور اسی فصیل کی  فراہم کردہ راہوں پر گامزن ہوتے ہوئے    ہمارے لیے تفخر کی علامت اس کے سامنے کاسہ لئے گدا بننے  میں لکھی گئی۔۔۔

جس کی تحریر آج بھی ہمارے اذہان میں کندہ ہے اور اس سے پہلو تہی برتںنا ممکن نظر نہیں آتا۔

   ہم نے   ہمیشہ اغیار کی مشابہت کا فریضہ ادا کرنے میں عجلت پسندی کو  خیرخواہی کا سندیسہ سمجھا اور اپنے افکار کو دبیز پردے میں پوشیدہ رکھنے کی سعی ِمسلسل کی۔ 

گو ہر گزرتے لمحے میں کچھ  صاحب ِ اسلام   نسل آدم کے ایمان کے گرد بُنا گیا ایک منظم و مربوط خطرے کا جھال تو بھانپ گئے اور اس کے سدّ باب کے لیے تادیر سہی مگر کام کا آغاز بھی ہوگیا۔

 لیکن شرم و حیا، محبت و شفقت،خلوص و اعتبار ،سادگی و جودوسخا  اور رکھ رکھاؤ کے جو پیمانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے  تھے ان  کے چکنا چور ہونے کا احساس بہت دیر سے اجاگر ہوا۔

 

تصویر کا یہ رخ کتنا بھیانک ہے کہ آج مادیت پرستی کی پرستش میں  اولاد والدین کے سامنے ہو کر بھی ان کے سامنے نہیں..!!

  آج کے  مسلمان  اپنے گھروں میں  زندہ نعشوں کی نسل  تیار کر رہے ہیں۔۔

جو اشرف المخلوقات کے نہیں  بلکہ حیوانیت کے جذبات سے سرشار ہیں۔ اور اسی تنزلی پر فائز اپنے گمان میں  صاحب افتخار و اختیار ہیں۔

 

اس سطحیت کی بڑی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتی ہے کہ

ان  بچوں کی تربیت کی ذمہ داری مائیں نہیں بلکہ  موبائل فون،ٹی وی اور لیپ ٹاپ کی سکرینیں  ادا کر رہی ہیں۔

جو ان کو ذہنی و جسمانی غلامی  کی زنجیر میں کتنی بری طرح جھکڑ چکی ہیں اس کا اندازہ بہت آسانی سے ان کی سوشل میڈیا کی صحبتوں و محبتوں اور ان کے کردار و گفتار  سے معلوم ہوجائے  گا۔

 

  سوچنے کی بات ہے کہ

  بے راہروی کی  آغوش میں پنپنے والی یہ نسلِ نو حرام و حلال میں کیا تمیز کرتی ہے؟؟؟

اپنی آئندہ زندگی کے لیے کون سے اہداف متعین کرتی ہے؟ 

اور   مستقبل میں کس طرح کے والدین کا روپ دھارنے کا اذن کرتی ہے؟؟ 

 

مگر المیہ یہ ہے کہ ان نکات کو زیرِ بحث لانے والی اکثریت بھی خاشاک غیر اللہ کو بھوبل میں بدلنے کا عزم صمیم نہیں رکھتی۔

تو اس ماحول میں افزائش کردہ نسلوں کی گمرہی کا اندازہ کیا  آپ کرسکتے ہیں؟؟

*******************

Comments