Samne wali khidki article by Imama Fakhra

سامنے والی کھڑکی

 

سنگرز کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں۔جیسے کچھ لوگ سٹریٹ سنگر ہوتے ہیں، کچھ پروفیشنل اور کچھ باتھ روم سنگرز۔ خیر راقم یعنی کہ آپ کی بہن گو کہ باتھ روم سنگر تو نہیں ہے البتہ کام کاج کرتے ہوئے سر تال کی پرواہ کیے بغیر "کوکتے" رہنے کی عادت ہے۔ اور یہ تو سنا ہو گا آپ نے "عادت فطرت بن جاتی ہے اور فطرت کبھی بدلتی نہیں۔" مسئلہ یہ ہے کہ پھر ہفتہ بھر ایک ہی گانا چلتا رہتا ہے۔

           تو ہوا یوں کہ حسب عادت "پوچھا" لگاتے ہوئے بے سرو تال گلا پھاڑ پھاڑ کر لہراتے بل کھاتے گانا گائے جا رہی تھی۔

          

                اُن سے ملی نظر کہ میرے ہوش اڑ گئے

                ایسا ہوا اثر۔۔۔۔۔۔ ایسا ہوا اثر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                کہ میرے ہوش اڑ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

             

  مجھے اپنی ہی آواز سن کر (غم سے) ڈوب جانے کا دل کر رہا تھا۔ ہمسائے تو پھر ہمسائے رہے۔ مجھے ڈر تھا کوئی شکایت لے کر گھر نہ پہنچ آئے۔

  اتفاق، حسین اتفاق! سامنے والی کھڑکی سے کسی چاند نے مابدولت کی سُریلی آواز سن لی تھی اور جواب میں داد کے طور پر " اُٹھاتے ہیں نظریں تو گرتی ہے بجلی" گایا گیا۔

 

رات گزر گئی، بات گزر گئی۔ چند روز بعد گانا بدل گیا۔ اب کی بار زباں پر " میرے سامنے والی کھڑکی میں ایک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے" کے بول رقصاں تھے۔ اس دن جوابی داد تو نہ آئی البتہ گانا سن لیا گیا تھا کیونکہ اس کے بعد سے ہر روز ہمارے گھر کبھی چاول، سالن اور کبھی کھیر آنا شروع ہو گئی۔

 

  بھلا ہو اماں کا جو وقفے وقفے سے گھر کا تیاپانچہ کرتی رہتی ہیں۔ مہمانوں کی آمد پر کمرہ بدر کر کے ہمارا ٹھکانہ دوسری جانب منتقل کر دیا گیا۔ جس کا میرے علاوہ کسی اور کو بھی بے حد افسوس ہے۔ اب گاتی تو ہوں پر نہ چاند کا ٹکڑا نظر آتا ہے اور نہ ہی گھر میں کھیر آتی یے۔ افسوس مجھے کھیر کے نہ آنے کا ہے۔ بس پھر ایسا دل ٹوٹا کہ اب ہر وقت یہی زبان پر رہتا ہے۔

                            "چٹا چولا، میں لائی کناری

                            کچی نکلی ڈھولے دی یاری"

 

 

                                                         تحریر

                                                         امامہ فاخرہ

 

Comments