دھوکہ
)ایک سچی کہانی(
میں مس آمنہ سے پہلی بار لاہور ایکسپو سنٹر بک فئیر میں
ملا تھا میں ایک کتابوں کے سٹال پر مصنف سے محبت کیوجہ سے اعزازی ڈیوٹی دے رہا تھا۔
میں نے اپنے تئیں سوچ رکھا تھا کہ ایک دن میں کم سے کم پانچ سو کتب بیچنی ہیں۔ اور
اپنی دو دن کی ڈیوٹی میں ادارے کی ایک ہزار کتب بیچنی ہیں اور دس کتب انجان لوگوں کو
بطور تحفہ دینی ہیں۔ انہی دس فری کتاب حاصل کرنے والوں میں سے ایک آمنہ تھیں۔ میں نے
کتاب کی بہت تعریف کی زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے مگر وہ کتاب خریدنے پر قائل ہی
نہیں ہورہی تھیں ۔ میں اس لڑکی کو یہ کتاب ہر صورت ہی دینا چاہتا تھا اور میں نے اپنا
آخری پینترا آزمایا کہ مس اگر آپکو یہ کتاب مفت مل جائے تو بھی نہیں لیں گی؟ کتاب تھی
"جب زندگی شروع ہوگی" مصنف ابو یحییٰ
پھر تو ضرور لے لوں گی وہ خوشی سے اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھ
پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی۔ سر آپ نے کیوں اتنا سر کھپایا آپ پہلے ہی یہ آفر کر دیتے۔
میں نے کتاب پیک کر دی وہ جاتے ہوئے رکی اور بولی کہ اپنی طرف سے ہدیہ کیے جانے کا
نوٹ اور کوئی نصیحت لکھ کر اپنے سائن کر دیں اپنا نمبر بھی لکھ دیں اگر آپکی یہ کتاب
اچھی لگی تو میں مزید کتب آن لائن آرڈر کر لوں گی۔ میں نے چھوٹا سا نوٹ لکھ دیا اور
اپنا نمبر بھی وہ شکریہ ادا کرکے چلی گئی۔ کوئی تین ماہ بعد مس آمنہ نے رابط کیا اور
کتاب کی بہت تعریف کی شکریہ ادا کیا اور میری دی گئی کتب کی لسٹ میں سے دو اور کتابیں
آرڈر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ میں نے انکا رابط کراچی ادارے کے پبلشر سے کروا دیا۔
مس آمنہ سے اسکے بعد کبھی کبھار ایک آدھ میسج کی چیٹ ہوجاتی۔
وہ ابھی پنجاب یونیورسٹی سے ایم فل اکنامکس کر رہی تھیں اس سے پہلے کوین میری کالج
کی طالبہ رہ چکی تھیں۔ میں عام طور پر غیر مناسب و پرسنل سوال کسی سے بھی نہیں کرتا
نہ ان موضوعات پر بات کرتا ہوں جن سے کسی کا کوئی دکھ جڑا ہو تلخ یادیں جڑی ہوں۔ انہی
میں سے ایک موضوع غیر شادی شدہ لوگوں میں سے وہ لوگ جنکی شادی کسی وجہ سے غیر معمولی
تاخیر کا شکار ہے سے شادی کی بات کرنا ہے۔ مگر میں نے نہ جانے کیوں آمنہ سے پوچھ لیا
کہ آپکی منگنی ہوگئی ہے؟ سم پر میسج تھا وٹس ایپ پر ہوتا تو میں فوراً ڈیلیٹ فار آل
کر دیتا مجھے یہ سوال بڑا عجیب لگا۔
مس آمنہ نے کچھ توقف کے بعد
جواب دیا جی سر بس دیکھ رہے ہیں گھر والے دعا کیجئے گا۔ میں نے کہا دعا ہی کروں یا
کچھ دوا بھی کروں؟ سر میں کیا کہہ سکتی ہوں آپکی بات امی سے کروا دونگی اگر آپ چاہیں۔
میں نے کہا ضرور کروائیے گا لاہور تو اتنے لوگ جاننے والے ہیں کر لیں گے کسی سے بات۔
میں بس دعا نہیں کرتا ایسے معاملات میں ممکن کوشش بھی کرتا رہتا ہوں۔ انہیں بہت خوشی
ہوئی اور دو دن بعد اپنی امی سے میری بات کروائی۔
آنٹی نے بتایا بیٹا آمنہ کا
کوئی بھائی نہیں ہے میری چار بیٹیاں ہی ہیں یہ سب سے بڑی ہے انکے ابو پرائیویٹ جاب
کرتے ہیں کسی پرنٹنگ پریس میں ملازم ہیں ہم سفید پوش لوگ ہیں بس بیٹیاں ہی دو جوڑوں
میں دے سکتے ہیں جہیز دینے کی حیثیت نہیں بس بچیوں کو پیٹ کاٹ کر پڑھایا ہی ہے۔ ذات
پات سنی وہابی شہری دیہاتی دور قریب پرائیویٹ و گورنمنٹ جاب کی کوئی ڈیمانڈ نہیں بس
جیسے ہم ہیں ہم سے کچھ مالی لحاظ سے بہتر لوگ ہوں اور آپکے جاننے والے ہوں تو اعتبار
کرنا آسان ہو جائے گا آمنہ بتا رہی تھی آپ کے بارے میں جان کر بہت خوشی ہوئی۔
آنٹی بولیں ان بچیوں نے بڑی عسرت کے دن کاٹے ہیں اگلے گھر
جاکر تو کچھ سکھ کا سانس لیں۔ میں نے کہا میں انشاء اللہ جلد ہی آپ سے رابطہ کروں گا۔
آنٹی نے فون کال بند ہونے کے بعد دوبارہ کال کی اور کہا کہ ایک بات میں آپکو بتانا
چاہوں گی کہ آمنہ پانچ سال قبل پریشر ککر کے پاس بیٹھی پالک ابال رہی تھی کہ ککر پھٹ
گیا تھا جس سے اسکے جسم کا کافی حصہ بری طرح جھلس گیا۔ ہم نے گردن اور بازو کی سرجری
تو کروا لی مگر ایک ٹانگ آدھی سے زیادہ جلی ہوئی ہے جسکی سرجری پر لاکھوں روپے لگتے
ہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ یہ آپ بتا دیجیے گا جس سے بھی بات کریں ہم کسی کو کوئی
دھوکہ نہیں دینا چاہتے۔ بعد میں کوئی بات نہ ہو جس سے آپکو اور ہمیں شرمندہ ہونا پڑے۔
میں نے کہا ٹھیک ہے اور پھر
جب آمنہ سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کوئی بیس رشتے والے گزشتہ تین سالوں میں آئے ہیں
جس کو بھی یہ بات بتائی لڑکے والے انکار کر دیتے ہیں اب رشتہ کروانے والے کہتے ہیں
کہ کسی شادی شدہ یا بچوں والے سے کروا سکتے ہیں شادی کنوارے سے نہیں کوئی کرے گا۔ وہ
بولی سر مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں مگر امی ابو نہیں مانتے میں تیس کی ہوچکی ہوں چھوٹی
بھی تینوں جوان ہیں سب ماسٹرز کر چکی ہیں جو آتا ہے ان میں سے کسی کو پسند کر لیتا
ہے۔ میں جاؤں تو انکی باری آئے شادی شدہ بھی ہوا تو کیا ہے جو میری قسمت میں ہوا مل
جائے گا۔
میں نے آمنہ سے کہا کہ اب
کوئی رشتہ آئے یا میں بتاؤں تو اسے یہ ٹانگ جلنے والی بات ہر گز نہیں بتانی۔ وہ بولی
سر کیا بات کرتے ہیں آپ؟ یہ بات کوئی چھپی رہے گی؟ میں نے کہا شادی ہوجانے تک تو چھپی
ہی رہے گی بعد میں کیسے بتانا ہے وہ میں بتا دوں گا۔ نہیں سر سوری ہم ایسے نہیں کریں
گے میری امی نہیں مانیں گے۔ میں نے کہا آپ تو مانیں آنٹی سے میں کر لوں گا بات۔ میں
بھی نہیں مانوں گی آپکو اندازہ نہیں میری ٹانگ کتنی اور کیسی بری طرح جلی ہوئی ہے۔
میں نے کہا مجھے جاننا بھی نہیں آپ چلتی تو ٹھیک ہیں کوئی چال میں نقص نہیں ہے ہر کام
ٹھیک سے کر سکتی ہیں تو یہ لال بتی نہ لگائیں اپنے ماتھے پر جسے دیکھ کر ہی لوگ پیچھے
ہٹ جاتے ہیں۔
میرے اصرار پر بھی مس آمنہ
نہیں مانیں۔ آنٹی سے بات کی تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو آمنہ کا تھا۔ اب میرے
پاس کوئی اور چارہ نہ تھا کہ میں سنیتا اور زینب سے ان ماں بیٹیوں کو نہ ملواتا۔ اور
میں نے اپنے آپ میں ہی یہ چیلنج لے لیا کہ جو بھی ہو اب اس آمنہ کی بچی کی شادی ضرور
کروانی ہے۔ سنیتا ایک عیسائی لڑکی تھی لاہور نشاط کالونی میں رہتی تھی میرے ماموں کے
گھر کے پاس انکا گھر تھا تو میری کالج دور میں ہی اس سے کسی وجہ سے سلام دعا ہو گئی
تھی پھر رابط بھی رہا۔
سنیتا کو ایک بار اپنڈکس کا
درد ہوا آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور آپریشن بھی ٹھیک اس جگہ سے ہوا جہاں سے
ڈیلیوری کا سی سیکشن ہوتا ہے۔ دکھنے میں وہ بلکل سیکشن لگتا تھا۔ آمنہ کے گھر والوں
کی طرح وہ بھی یہ بات ہر کسی کو بتاتے تھے سنیتا کو میں نے ہی یہ بات چھپانے پر قائل
کیا تھا اسکی شادی ہوئی میں اس شادی میں شریک تھا آج وہ دو بچوں کی ماں ہے اسکا خاوند
چند ماہ بعد مجھے فون کرتا ہے کہ خداوند آپکو خوش رکھے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو سنیتا
ہمارے گھر کو جنت نہ بنا پاتی۔
دوسری لڑکی زینب کو پسند کی
شادی ہونے پر پہلی رات ہی کنوارپن کی مروجہ جاہلانہ علامات نہ ظاہر ہونے پر طلاق ہوگئی
تھی۔ بعد میں جاب ہوئی تو وہ گھر سے دس ضلعے دور دریائے سندھ کنارے چلی گئی۔ ایک بار
پھر سے پیار ہوا اور پہلے سے بھی بہت زیادہ شدید ہوا۔ اب زینب کو لگتا تھا کہ یہ اس
کا سول میٹ ہے وہ ایک جم کا مالک تھا باڈی بلڈر بندہ تھا۔ مگر وہ ڈرتی تھی اسے پہلی
شادی کا بتا دیا تو سب کچھ تباہ ہوجائے گا سارے سپنے ٹوٹ جائیں گے سب کچھ بکھر جائے
گا۔
اسنے خود ہی میں یہ بات چھپانے کا عہد کیا کہ کون بھکر سے
نارووال جا کر پوچھے گا یہ شادی شدہ ہے کہ نہیں۔ اور انہوں نے کونسا پوچھا ہے تم شادی
شدہ تو نہیں جو میں کوئی جھوٹ بول رہی ہوں کہ نہیں میں کنواری ہوں۔ اسکے نئے پیار کے
گھر میں سب لوگ پڑھے لکھے تھے وہ بہت زیادہ پون چھان میں پڑنے والے وہمی نہ تھے وہ
اپنے متوقع ہونے والے سسرال اپنے دوست کے ساتھ دو بار جا بھی چکی تھی۔ وہ سب کو پسند
تھی۔ پہلی شادی چھپا لی گئی اور بھکر میں ہی سادگی سے نکاح ہوگیا۔ اولاد تو اللہ نے
ابھی تک نہیں دی مگر انہیں شادی کے تین سال میں نہ صرف اپنے ہبی سے بہت پیار ملا ہے
بلکہ سسرال والے بھی بہت عزت کرتے ہیں۔ ہنسی خوشی زندگی گزر رہی ہے۔
وہ کسی طبعی مسئلے کی وجہ سے ماں نہیں بن سکتیں وہ اب اپنے
خاوند کی دوسری شادی کروانا چاہتی ہیں جو کرنے کو وہ بندہ تیار ہی نہیں کہ ہم ابھی
پانچ سال مزید انتظار کر لیں گے بعد میں کوئی بچہ گود لے لیں گے۔
ان دونوں لڑکیوں کو میں نے لاہور آنے کی دعوت دی کہ آپکی
ہی جاتی کی ایک اور لڑکی ہے جسے آپکے دھوکے جیسا ہی دھوکہ دینے کو قائل کرنا ہے۔ دن
طے ہوا وہ دونوں اور میں طے شدہ دن کو آمنہ کے گھر سبزہ زار کچھ تحفے تحائف لیکر لاہور
پہنچ گئے۔ ان دونوں لڑکیوں نے آمنہ اور اسکی امی کو اپنی کہانی سنا کر منا ہی لیا کہ
ایسی باتیں چھپانے میں کوئی دھوکہ نہیں جو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہیں۔ زینب بولی
ایسے معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگ تو خدا کی رحمت ہوتے ہیں ان میں تو دیکھنے والوں کو
رب دکھتا ہے جس گھر میں یہ جائیں وہاں صبح شام رحمتیں برستی ہیں اور جو انکو قبول کرے
وہ مانو دنیا میں ہی جنت پا لے گا۔ میں یہ اپنی تعریف نہیں کر رہی بلکہ اپنے خاوند
و سسرال والوں کے جذبات کو الفاظ دے رہی ہوں۔
ملتان چونگی سے ایک پولیس
کانسٹیبل کا رشتہ آیا دولہے میاں بھی ساتھ ہی تھے آمنہ کی امی نے لڑکے والوں کو اپنے
بیٹے کو ساتھ لانے کا کہا تھا جلی ہوئی ٹانگ کا نہیں بتایا گیا وہ لوگ پسند کر گئے
کیوں نہ کرتے آمنہ ماشاءاللہ کسی سے کم نہ تھی شکل صورت بھی مناسب تھی قد کاٹھ بھی
اچھا تھا ایم فل اکنامکس کرکے ایک نجی کالج میں پڑھا رہی تھی وہ لوگ پہلی ہی بار دس
ہزار روپے آمنہ کو زبردستی دے گئے۔
آمنہ لوگ گئے میں بھی ساتھ تھا گھر بار اچھا تھا منگنی ہوئی
اس میں بھی شریک ہوا تین ماہ میں شادی ہوگئی۔ کم پولیس والے اتنے دیکھے ہیں جیسا آمنہ
کا شوہر تھا۔ شادی ہوئی کچھ بھی نہیں ہوا دولہا بھائی نے ٹانگ دیکھ کر کوئی بات بھی
نہیں کی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اب شادی کو دو سال ہونے کو ہیں آمنہ کا چاند سا ایک بیٹا
ہے اور آمنہ کے سسرال میں اسکے خاوند کے سوا کوئی نہیں جانتا انکی بہو کی ایک ٹانگ
جلی ہوئی ہے۔ ڈیلیوری کے وقت اسکے خاوند نے پہلے ہی ہسپتال جا کر ڈاکٹر سے کہہ دیا
تھا کہ اسکی بیوی کی ٹانگ کا میرے گھر والوں کو نہیں بتانا میں مناسب وقت دیکھ کر خود
بتا دونگا۔ یہ بات ہم نے چھپا رکھی ہے۔
میرا ماننا ہے ایسے دھوکے دینے میں لوگوں کی مدد کیجئے اور
ایسے دھوکے کھا بھی لیجیے یقین مانیے آپ کی زندگی میں اللہ کیسی رحمتیں و برکتیں نازل
کرے وہ آپ ایسا دھوکہ کھانے کے بعد ہی دیکھ پائیں گے۔ کتنی ہی لڑکیاں ہیں جنکو معمولی
سی ایسے مسائل جیسے شادی سے پہلے آپریشن ہونا کسی عضو کا جلا ہونا معمولی معذوری ہونا
رنگ کالا ہونا لڑکی کا تھوڑا موٹی ہونا نظر کمزور ہونا عمر تھوڑی زیادہ ہونا وغیرہ
ہیں جنکی وجہ سے انہیں انکی اپنی ذات "عورت" کی ہی دوسری عورتیں ناک منہ
چڑھا کر رد کرکے چلی جاتی ہیں کہ ہمارے بھائی بیٹے میں کونسا نقص ہے جو ایسی لڑکی لیں
چلو بہن۔۔اور جب کبھی ایسی جاہل عورتوں کو جیسے تیسے کراس کرکے بال مردوں کے کورٹ میں
جاتی ہے تو وہ نہ صرف اپنی بیوی کو اسکی کمی کے ساتھ قبول کرتے ہیں بلکہ عزت و احترام
بھی دیتے ہیں۔
خطیب احمد
Comments
Post a Comment