December ki sham by Bushra Mhedi

دسمبر کی شام

انگشت شہادت سے بالوں کی ایک لٹ کو جانے کب سے سہلانے جا رہی تھی۔کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں نیلے پتھر کی طرح چمک رہی تھیں۔آخر کونسی سوچ تھی جو اسے بے قرار کر رہی تھی۔

دسمبر کی ٹھٹھرتی شام کس قدر سہانی ہے پر لطف،رومانوی سی چائے کے کپ سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے جیسے اس کی روح بھی تروتازہ ہو جایا کرتی تھی مگر ___

دسمبر اس قدر اداس اس کے لیے کبھی نہ تھا۔لیکن آج وہ مسلسل کھڑکی میں کھڑی اداس آنکھوں سے مغرب کی جانب ایک سیاہ راستے کو جس پر بارش کی بوندیں دلچسپ منظر پیش کر رہی تھی کچھ ٹٹول رہی تھی اور انتظار کر رہی تھی مگر کس کا۔۔۔۔؟؟

ویسے تو دسمبر کی ہر شام اس کے لیے بہت اہم تھی۔مگر 27 دسمبر کی شام کا اسے شدت سے انتظار تھا۔ آخر وہ شام آ ہی گئی جس کے لیے وہ پاگل ہوا کرتی تھی۔

۔۔۔۔۔مگر آج۔۔۔۔۔

وہ ٹکٹکی باندھے چائے کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرا دی۔ کیونکہ اس کا ماننا تھا

دوبارہ گرم ہونے والی چائے اور دوبارہ بنائے گئے رشتوں میں پہلے جیسی مٹھاس نہیں رہتی

Comments

Post a Comment