کرونا اور اس کے زمہ دار ہم
ڈاکٹر بابر جاوید۔
بدقسمتی سے ہم کرونا پھیلاؤ کے اس فیز میں داخل ہو چکے ہیں
جہاں نہ جانے کتنے پیاروں کی قربانی دنیا پڑے گی۔
ہم بچ سکتے تھے۔
دنیا کے ان ایک سو اسی ممالک
کی طرح بچ سکتے تھے جو ہم سے پہلے مبتلاء ہوئے اور ہم سے کہیں پیچھے ہیں۔ لیکن ہم انہیں
چھوڑ کر ٹاپ متاثرہ ممالک میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کی ذمہ دار حکومت یا عوام سے زیادہ
وہ لوگ ہیں جو اس اثناء میں سازشی نظریات پھیلانے میں پیش پیش رہے۔
ایک وقت تھا جب حکومت سڑکوں پر ڈنڈا لیے کھڑی تھی۔ اور عوام
چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دے رہی تھی۔ صرف کچھ ہی وقت تھا ہم وائرس کو شکست دینے کے قریب
تھے کہ سازشی ٹولہ کود پڑا۔
کہا گیا کہ کرونا مریضوں کو ڈاکٹر زہر کا انجیکشن دے کر
مار رہے ہیں۔
جبکہ پاکستان میں وائرس سے مبتلاء ہونے اور مرنے والے نوجوان ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی
تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہو گئی۔ یکے بعد دیگرے ہم نے وہ نوجوان اور ہنستے مسکراتے
چہرے ہمیشہ کے لیے گنوا دیے جن کے سامنے ایک لمبا اور روشن کیرئر تھا۔ جنہوں نے اپنی
جانیں گنوا دیں ہم انہیں قاتل قرار دیتے رہے۔
اعتراض آیا کہ باختیار طبقہ کیوں نہیں مبتلا ہوتا۔
کبھی کبھار کسی سیاسی راہنما کی رحلت کی خبر سنا کرتے تھے۔
جبکہ ایک ہفتے میں نصف درجن ممبران اسمبلی جان سے گئے۔ اخبارات سرخیوں سے بھر گئے اور
ہم ٹھٹھے اڑاتے رہے۔
کرونا امریکہ کی سازش ہے؟؟؟؟
جبکہ وہی امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے متاثرہ ترین ملک ہے۔
جس بِل گیٹس نے چپیں ڈالنی تھیں۔ فی الوقت تو وہ اپنے ہم
وطنوں کی زندگیاں بچانے سے قاصر ہے۔ اور ہم سارا مدعا ہی اس پر ڈال کر بیٹھے رہے۔
کرونا کے مریض کہاں ہیں میڈیا دیکھا کیوں نہیں رہا؟؟؟؟
آج اسی میڈیا کی نامور شخصیات بے بس پڑی قرنطینہ میں دن
گذار رہی ہیں جبکہ ہم اسے جھوٹ بولنے کے طعنے دیتے رہے۔
پروپیگنڈا اتنا پھیلا کہ مختارے کو "گھر بوہ"
کا مشورہ دینے والے اسے باہر نکل کر دوسروں کے جوڑوں میں بیٹھنے پر اکسانے لگے۔
یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازش
شیعہ کی سنی کے خلاف سازش
سنی کی وہابی کے خلاف سازش
سائنس کی مذہب کے خلاف سازش
سازش، سازش سازش۔۔۔۔۔۔ کا راگ الاپتے رہے۔ اور کرونا نے
اپنے وار جاری رکھے۔ ذرا دیکھ تو آؤ ہسپتالوں میں کتنے شیعہ پڑے ہیں کتنے سنی، کتنے
کافر کتنے مسلمان۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
میں نہ مانوں کی رٹ لگانے والے اس بیٹے کی مدد کرنے کیوں
نہ گئے جس کا باپ کرونا کے باعث جاں بحق ہوا اور تدفین کے لیے کوئی نہ آیا۔ جو اکیلا
ہی اپنے باپ کی لاش کو دفنا رہا تھا۔ کہاں گئے وہ بے حس جاہل جو کہتے تھے کرونا ہے
ہی نہیں۔
مانتا ہوں حکومت کی گومگو پالیسی نے بڑھاوا دیا۔ لیکن ہم
نے کیا کیا؟ اجتماعی دعاؤں سے اجتماعی شاپنگوں تک کا سفر ایک ماہ میں طے کر لیا۔ اور
نتیجہ یہ کہ پندرہ دن میں ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں کبھی چین، اٹلی اور اسپین جیسے
ملک تھے وہ تو بچ گئے۔ ہم بھی بچ ہی جائیں گے۔ لیکن نہ جانے کتنی زندگیوں کا خراج دے
کر، نہ جانے کتنے پیاروں کو وداع کرکے۔
وہاں تو بوڑھوں کو مرتے دیکھ کر سکھ کا سانس لیا گیا۔ لیکن
تم،،،، تمہیں تو اپنے بڑوں کو ہاتھوں سے دفناتے خوشی نہیں ہونی چاہیے۔
آپ خواہ جسے مرضی الزام دیں۔ میری نظر میں اس ساری صورتحال
کے بڑے ذمہ داروں میں وہ لکھاری بھی شامل ہیں جو سازشی نظریات کا پرچار کرتے رہے۔ وہ
قاری بھی شامل ہیں جو انہیں پھیلاتے رہے۔ ہر وہ شخص جس نے افواہوں کو جنم دیا۔ آگے
بڑھایا۔ واہ واہ سمیٹی اور بغلیں بجائیں۔۔۔۔۔۔ اس صورتحال کا ذمہ دار ہے۔
کیونکہ ان لوگوں کے سبب ہی
معاشرتی غیر سنجیدگی پیدا ہوئی جسے حکومتی آئیں بائیں شائیں نے اور بڑھاوا دیا۔
کہاں ہے کرونا کا مریض۔۔۔۔۔ کہاں ہے کرونا کا مریض
کہہ کر ہذیان بکنے والوں کو اب میتیں اٹھتی دیکھ کر موت
نہیں شرم تو آتی ہو گی۔ یا شاید شرم نام کی چیز کا تعلق بھی کفار کی سازش سے ہے۔ سازشی
سیاست کھیلنے والے یہ چھوٹے چھوٹے مختارے گھر نہ بیٹھے دوسروں کے جوڑوں میں بیٹھ گئے۔
اور گل واقعی ودھ گئی۔اب بھی ہوش کے ناخن لے لو اور سمبھل جاؤ اور احتیاط کر لو ورنہ
پچھتاؤ گے۔SOPs اپنا
لو اپنے لئے اپنے بچوں کے لئے ۔
شکریہ ۔
Comments
Post a Comment