عنوان۔۔۔عورت عدم تحفظ کا شکار
کیوں۔۔ذمہ دار کون؟
کالم نگار۔۔سدرہ غفار
میں کل تنہا تھی خلقت سو رہی تھی ۔میرے دل میں اک عجب سی
وحشت ہو رہی تھی ۔۔کبھی جکڑا تھا مجھے زندگی نے اور کبھی لگتا تھا کہ میرے سرہانے موت
سو رہی ہے۔۔میرے قاتل تو میرے خود کے اندر ہی چھپے تھے اور بدنام ایسے ہی خلقت ہو رہی
تھی۔۔
یہ تماشاۓ
گلزار دیکھ کر خیرو شر کا معیار دیکھ کر اور بے اعتباری و اعتبار دیکھ کر ۔۔سلگ اٹھتا
ہے دل اپنے بام و در کی حالتِ زار زار دیکھ کر۔۔
یہ کیسا جہاں ہے جھاں راحت کلفت بن جاتی ہے۔۔جھاں ڈوپٹہ
گلے کا پھندہ سمجھا جاتا ہے۔۔جھاں فحاشی ایک فیشن بن گئی ہے۔جہاں حوا کی بیٹی اگر برقعہ
بھی پہن رہی ہے تو بس فیشن کے طور پہ۔۔جہاں عورت اگر لپٹے وجود میں باہر جا رہی ہے
تو مرد خود پہ فرض سمجھتا ہے کہ اسے سر سے پاؤں تک دیکھے بے شک وہ اسکی نظروں کی بے
حیائی سے کانپ رہی ہو دیکھنا وہ فرض سمجھتا ہے کیوں آخر؟
اپنے اندر اپنے قاتل بٹھا کہ پوچھتے ہو ذمہدار کون ہے ؟
جب فحاشی عام ہو جائے گی جب چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں
میں موبائل دے دیا جائے گا کہ ہمارا بچہ پڑھ رہا ہے۔۔جب اعلیٰ عہدیدار چند پیسوں کے
لیے انٹرنیٹ پہ گندگی کی انتہا کر دیں گے تو فحاشی اور زیادتی عام ہو گی۔۔پھر چاہے
وہ بچہ کرے یا بڑا۔۔یہاں ذمہدار ہے میڈیا۔۔
مگر ایک ہی تو ذمہدار نہیں ہے نہ۔۔ہزار وجوہات ہیں۔۔میرے
پاس لفظوں کا ذخیرہ بہت ہے مگر دی گئی حد اپنی سانسوں کی ڈور توڑ دے گی مگر اس کیوں؟
لفظ کا جواب اور اشکال میں پھر بھی میرے ذہن میں رہ جائے گا۔۔۔کاش کہا جاتا کہ بولو جتنا بول سکتے ہو تو
میں یقین سے کہتی ہوں کہ اس بولنے کے بعد سب ایسا آئینہ دیکھتے کہ منہ چھپانے کے لیے
دامن بھی نہ ملتا ۔۔کوئی دامن گیر ہوتا تو اسی حوا کی بیٹی کے جسے بھرے مجمعے میں نازیبا
الفاظ سنا کے آیا۔۔
اگر ماں یہ دیکھے نہ کہ اسکی بیٹی جس طرح دہلیز پار کر رہی
ہے تو شائد اس ایک بیٹی کی وجہ سے ہزار بچ جائیں ہوس سے۔۔کیونکہ مرد سمجھتا ہے کہ ایک
ایسی ہے تو سب ایسے ہیں۔۔مگر آجکل کہ کے دیکھو کہ سر پہ ڈوپٹہ رکھ لو یا جینز نہ پہنو
تو کہا جاتا ہے آپکو کیا پتہ فیشن کا میں شلوار قمیض پہنوں میں تو پینڈو لگونگی
۔۔۔اوہ خدا کی بندی تم کیا جانو کہ جو تم وہ وہی باقی عورتیں ہیں وہی میں ہوں۔۔آپ باہر
جا رہی ہو تو آپ اپنے ساتھ دنیا کی ہر عورت کو لے کے جا رہی ہو کچھ تو خیال کرو مگر
دوستو اس آئینے کے ایک رخ پہ مت بولنا دوسرے رخ کو بھی ہضم کرنا۔۔
آئینے کا دوسرا رخ ہے مرد۔۔یہاں بات آ جاتی ہے ضمیر کی،نفسیات
کی،ذہنی گندگی کی اور مردانگی کی۔۔
جب ضمیر مر جاتا ہے تو انسان کھوکھلا ہو جاتا ہے اور ضمیر
پتہ ہے کب مرتا ہے جب آپ بے حسی منافقت اور بےشرمی کی انتہا کر دیتے ہو تو ضمیر بھی
اپنی سانس کا گلا خود گھونٹ دیتا ہے۔آجکل کے نام نہاد مرد حضرات بھی ایسے ہی ہیں۔جھوٹی
غیرت اور شرم کو سینے سے لگائے بڑے بڑے فتوے جاری کرتے گھوم رہے ہیں۔۔میرا ایسے حضرات
سے سوال ہے کہ کیا بیٹی وہی ہوتی ہے جو آپکے خون کی عکاسی کر رہی ہے۔کیا بیوی وہی ہے
جسے آپ نے ایک سجاوٹ کے طور پہ گھر رکھا ہے۔کیا ماں وہی ہے جسکے پیٹ سے آپ نے جنم لیا
اور کیا بہن وہی ہے جو آپکی سگی ہے۔۔باقی کیا ہیں؟ آپ سب کی منظورِ نظر۔۔تف ہے۔۔
وہ کسی کی ماں ،بہن،بیٹی اور بیوی نہیں ہے کیا جس پہ نازیبا
الفاظ کی بوچھار کرتے ہو ۔۔جس پہ آوازیں کسنا اپنا فرض سمجھتے ہو۔۔بنا ڈوپٹے کی کیا
یہ وحشی تو چادر میں لپٹے وجود تک کو نہیں چھورتے۔۔آخر کیوں۔۔۔صرف اس وجہ سے کہ وہ
عورت ہے۔۔
قصور مرد کا ہی نہیں اس معاشرے کی سوچ کا ہے جس نے عورت
کو لاوارث بنا کہ رکھ دیا ہے۔۔اگر میں بول رہی ہوتی تو شاید میری آواز کب کی دم توڑ
چکی ہوتی۔ کتنے دکھ کی بات ہے نہ کہ جو عورت نو ماہ ایک بچہ کو اپنی کوکھ میں پالتی
ہے دنیا کی تکالیف برداشت کرتی ہے وہی جب دنیا کو سمجھتا ہے تو اسی عورت کو گھر سے
باہر پھینک دیتا ہے۔۔یعنی عورت کا ماں کے روپ میں گھر نہیں رہا وہ بیٹے پہ بوجھ بن
گئی ہے کیونکہ وہ اسکی حرکات و سکنات پہ بولتی جو ہے تو وہ اس بیٹے کے کان کھاتی ہے
اس لیے یہ اسکا گھر نہیں ۔پھر بیٹی ہے تو وہ جی بلبل ہے جو اس گھر کی باسی نہیں ہے
قانون الٰہی ہے ک بیٹی نے اگلے گھر جانا ہے تو جی بیٹی اگلے گھر گئی یعنی مائیکہ بھی
اسکا گھر نہیں ہے۔آگے بیوی بن کے گئی مرد کی مردانگی پہلے دن اسے آگاہ کرتی کہ میرے
آگے اونچا کبھی نہ بولنا اور میرے گھر والوں کی ذمہداری تم پہ ہے وہ جی ساری عمر ڈر
کے رہتی کہ مجھ سے غلطی نہ ہو جائے پھر خود باہر مرد ہر عورت سے بول رہا اپنی کمائیاں
لٹا رہا بیوی کو بدچلن کا تمغہ پہنا کے نکال دیا ۔یعنی کہ بیوی کا بھی کوئی اپنا گھر
نہیں۔۔
مانا کہ عورت کو اپنی عزت منوانی چاہیے مگر کیسی مردانگی
ہے کہ بیچ بازار میں عورت ذات کی دھجیاں اڑا دو۔۔یہ معاشرے کا قصور ہے کہ جس نے عورت
کو لاوارث بنا دیا جسکا اپنا کوئی گھر نہیں ہے ساری عمر وہ دوسروں کے لیے جیتی ہے۔۔۔جب
معاشرے نے ہی عورت کو بس ایک گالی بنا دیا ہے تو کیسے ان ہوس کے پجاری مردوں سے حوا
کی بیٹیوں کی عزت بچاؤ گے۔۔۔
جناب پہلے معاشرے کی سوچ بدلو۔عورت کو اسلام کی بیٹی بناؤ
مرد کو چوراہے پہ کھرا کر کہ بتاؤ عورت کی عصمت کے ساتھ کھیلنے کا انجام کیا ہوتا ہے
۔مرد کو بتاؤ کہ منہ پھاڑ کہ جو کہتے ہو نا کہ عورت کیوں بے پردہ باہر نکلی کہ مرد
نے دیکھا تو انکا وہ منہ بند کرو یہ بتا کے کہ آپ خود مومن بن جاؤ اسلام میں آپ مردوں
کو بھی کھلے لفظوں میں پردے کا حکم دیا ہے وہ پردہ ہے آنکھوں کا ،نفس کا اور زبان کا۔۔آپ
مومن کیوں نہیں بنتے مرنا بس عورت نے ہی ہے آپ تو پردہ دار کو نہیں چھوڑتے بے پردہ
کو کہاں بخشو گے۔۔۔
مت بھولیں کہ مرنا مرد نے بھی ہے ۔۔اور دنیا مکافات عمل
ہے جو بو گے وہی کاٹو گے اور اپنا کیا اس دنیا میں دیکھ کہ جاؤ گے کسی کی عصمت پہ ہاتھ
ڈالو گے تو اپنے گھر کو کیسے بچاؤ گے۔۔سوچ بدلو معاشرے کی عورت کی اور مرد کی مردانگی
کی۔۔
جب عورت کو معاشرہ عزت دے گا ۔۔انٹرنیٹ سے گندگی کا خاتمہ
ہو گا،جب عورت اپنی عزت کی حفاظت اپنے پہناوے اور لب و لہجے سے کرے گی جب اسلام نام
کا نہیں دل کا سکون بن جائے گا تو پھر میں دیکھتی ہو کہ کیسے عورت عدم تحفظ کا شکار
ہوتی ہے۔۔۔
ان ذمہدار عوامل کا سر قلم کرنا پڑے گا ورنہ وہ دن دور نہیں
جب ہم تماشائی بھی اس ظلم کی بھٹی میں جلیں گے۔
دراصل ہم سب پتھر بن چکے ہیں ۔۔۔احساس مر گیا ہے ۔۔خدارا
احساس بیدار کریں اور سوچ بدلیں عورت گل ہے جو گھر میں خوشبو بکھیرتی ہے خدارا اسکا
نصیب کانٹوں سے نہ بھریں۔۔۔
احسان ہو گا صنف نازک پہ۔
*******************
Excellent 👍
ReplyDeleteExcellent and reality
ReplyDeleteOutstanding
ReplyDelete