ریپ۔۔۔
آج کل بہت ہی نامی گرامی لوگ بڑے وثوق سے یہ بات کہتے ہوئے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں کہ عورت کو ضرورت کیا تھی باہر اکیلے نکلنے کی۔۔ میرے عزیز دوستوں مجھے یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ایک عورت خواہ وہ بچی ہو یا بڑی ہو مگر صنف نازک کو ہی کیوں ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔۔ اس معاشرے میں موجود وحشی درندے جو آدمی کا لبادہ اوڑھے عورتوں کی عصمت پامال کرتے ہیں انہیں کوئی کیوں کچھ نہیں کہتا۔ عورت تو عورت ہے کہیں جگہوں پر اس کے بھی بہت قصور ہیں مگر مرد کا قصور ہر چیز سے بڑھ کر سامنے آیا ہے۔ عورت ڈھک چھپ کر بھی اپنے کام کرے ، اپنی حدوں کی پابند ہو کر تب بھی وہ مرد کی درندگی کا نشانہ بنتی ہے۔ مگر سیک سوال۔۔ آخر کب تک؟ جب تک یہ درندگی کسی صاحبِ اقتدار یا اختیار کے اپنوں کے ساتھ نہ ہو جائے۔ آخر ہم عورتوں کا قصور کیا ہے؟ صرف یہ کہ ہم عورتیں ہیں؟ میرے عزیز دوستوں اب شعلے بھڑک اٹھے ہیں، آگ پھیل رہی ہے۔ بہت جلد یہ آپ کو اور آپ کے اپنوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ پھر کیوں کر رہے ہیں انتظار دوبارہ کسی زینب کے لٹنے کا؟ بس اب کھول دو یہ زباں پہ لگے قفل اور لگاؤ پھانسی ان درندوں کو.
اب عورت محفوظ رہے گی۔ہر عورت محفوظ رہے گی۔
انوشہ آرزو
Comments
Post a Comment