"
جادو کے حیرت انگیز کمالات "
ازقلم:
سیدہ صغریٰ غازی
(فاریہ
فاطمہ)
تو لیجیے میری بہنوں
اور اُن کے بھائیوں آج میں پھر سے آپ کے بھدّے چہرے جس پر طرح طرح کی
پریشانیوں نے اپنی حیثیت کے مطابق جا بجا نقوش چھوڑ رکھے ہیں اسی چہرے پر ہنسی
لانے کی اپنی سی کوشش کرنے کو دوبارہ آموجود ہوئی ہوں(بھئی سمجھیے نا جو میں نے آپ کے حسین مُکھڑے کی تعریف کے قصیدے
پڑھ ڈالے اور آپ کو نظر لگ گئی تو مجھ معصوم بندی کو تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے
نا)
چلیں پھر اپنی آج کی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں جس کا عنوان
کچھ یُوں ہے
"جادو کے حیرت انگیز کمالات"
یقیناً آپ میں سے
پچاس فیصد افراد نے عنوان کو پڑھ کے کالے
جادو کا ہی سوچا ہوگا جس کے اشتہارات اور انتظامی عملہ ہمارے ملک میں موجود
دیواروں اور ان دیواروں کی چار دیواری میں رہنے والے افراد سے ذیادہ ہے اور ہاتھی
کے ناپ پر لکھے گئے بڑے بڑے حروف حلق پھاڑ کے کہے جا رہے ہوتے ہیں کہ محبوب آپ کے
قدموں میں(محبوب ہے کے مَسکا لگانے والی کام چور نوکرانی جس کو اپنے (پھٹی ایڑیوں
والے) قدموں میں بٹھا کے آپ نے آس پاس کے گھروں کی کہانیاں سننی ہیں۔ ۔ ۔بتائوں
بھلا)
پھر آتا ہے مردانہ اور زنانہ پوشیدہ بیماریوں کا تسلی بخش
علاج(لو کر لو بات جب بیماریاں ہیں ہی پوشیدہ تو ایسے سرِ عام اشتہاری کیوں قرار
دیا جا رہا ہے انہیں)
لیکن سوچیے ذرا اگر ان عامل بابائوں کو ان نزاکتوں کا علم
ہوتا تو سڑک چھاپ پیر بنتے ہی کیوں کسی
اعلیٰ پوسٹ پر تعینات ہو کے ملک و قوم کی خدمت نا سہی اپنے بینک اکائونٹ تو ضرور
ہی بھر رہے ہوتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور باقی کے پچاس فیصد افراد نے مداری اور سرکس میں ماچس کی
تیلی جیسی پتلی کمر والی رسّی پر چلنے والے بندے کا سوچا ہوگا مگر آپ کے دونوں
خیالات ہی غلط ہیں اور بھاڑ میں ڈالیں اس
پیر مرید کی بحث کو اور سرکس کو بھی۔ ۔ ۔ ۔
کہاں آپ کی سوچ نے
مجھے گھما ڈالا بھئی اپنی سوچ اپنے تک محدود رکھنی چاہیے آئیندہ میری محفل
میں آئیں تو اس بات کا خاص خیال رکھے گا
کیونکہ جو بات آپ نے سوچی ویسا سرے سے کچھ نہیں
جادو کی اور بھی کئی اقسام ہیں لیکن جس مخصوص قسم کے جادو
سے آج میں آپ کو متعارف کروانے لگی ہوں آپ اس سے بہت پہلے سے آگاہ ہیں لیکن یوں
ایسے تبصرہ شاید پہلی بار پڑھ رہے ہوں اور اگر پہلے بھی اس قسم کا تبصرہ آپ کی
آنکھیں پڑھ چکی ہیں تو معذرت کے ساتھ یہ کوئی انوکھا کام نہیں کر چکے آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
عنوان کا تعلق ہے" بیوٹی پارلر" سے ۔ ۔ ۔(ہاں جی
اب آپ یہ کہیں گے کے اچھا سہی ہاں سمجھ آگئی یہ عنوان کیوں دیا مصنفہ نے)
"بیوٹی پارلر"۔ ۔ ۔ جادوئی آلات سے لبریز ایسا علاقہ
جس کے داخلی گیٹ پر کسی حسین دوشیزہ کی من موہنی فُل سائز تصویر بڑی شان سے نظروں
کو خِیرہ کرتی دکھائی دیتی ہے جس میں کبھی وہ نگاہیں جھکا کے پلکوں کی نازک باڑ زمین
بوس کیےہوئے شرمائی سی نظر آتی ہے اور کبھی نینوں کے تیر چلاتی نظر آتی ہے۔ ۔ ۔
اس نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت تصویر کو ہر آتی جاتی نظر
ایک نظر بھر کے ضرور دیکھتی ہے۔ ۔ ۔کچھ لوگ اس تصویر کو دیکھ کے کانوں کو ہاتھ لگاتے
استغفار استغفار کا ودر کرتے جہنم کی آگ
کو تصور میں لاکے جی جان سے کانپ جاتے ہیں اور فوراً سے وہاں سے گزر جاتے ہیں ۔ ۔
۔تو کچھ لوگ تصویر میں دکھائی دیتی لڑکی کے حُسن کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں آئو
دیکھتے ہیں نا تائو اور دھڑام سے چھلانگ لگا کے۔ ۔ ۔ ۔ گَڑ گُڑو گَڑ گُڑو گُڑوپ ۔
۔ ۔ڈوب جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
تو کچھ حسد کی نگاہ رکھتی خواتین اونہہ کہہ کے ساتھ میں ابرُو
اچکا کے بڑی ادا سے کہتی ہیں
''دیکھو تو کیسی کوجی باندری لگ رہی ہے (اور ان جیسی خواتین
کے لیے ایک ہی جملہ "جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے")
اور کچھ لڑکیاں جنہیں میک-اپ کے نام پر لپ-اسٹک اور نیل
پالش کے علاوہ کچھ پتا نہیں ہوتا وہ بھی ہاتھ
نچا نچا کے تصویر میں مین میخ نکال رہی ہوتی ہیں اور ذور وشور سے اپنی رائے کا کُھلم
کُھلا اظہار فرمارہی ہوتی ہیں جیسے کہ"
''یار یہ گال پر ذیادہ ہی لال رنگ لگایا ہوا ہے
''اُفف یہ آنکھیں دیکھو لال مرچ جیسی تیکھی لگ رہی ہیں اس
کے منہ کے ساتھ ذرا میچ نہیں کر رہی ہیں"
''یار اس کے بال اگر شانوں کے دونوں طرف سے آگے کو رکھے جاتے تب ذیادہ اچھا لگا ہے کی نہیں"
یہ تو خیر میں نے ابھی دروازے پر ہونے والی گفتگو آپ کے گوش
گزار کی ہے اب چلیے ذرا عمارت کے اندر
ہاں جی تو اندر ہوتی ہیں بیوٹی پارلر والیاں۔ ۔ ۔جیسے ہوتی
ہیں جادو ٹونے والیاں
(اب برا مت منانا میں
نے ایسی ویسی کوئی بات نہیں کی جادو ٹونے والی مطلب بھدی شکل کو جو آہا
ایسا بنادے جسے دیکھتے ہی منہ سے بے ساختہ آفرین آفرین نکلے تو جادو ٹونےوالی ہی
ہوئی/ہوئے آپ)
بیوٹی پارلر میں داخل ہونا کسی معرکہ کو سر کرنے سے کم نہیں
ہوتا یہ بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ۔ ۔
اب آپ کہیں گے ایسا کیوں تو جناب اپنی کوجی شکلیں لے کے جب
آپ
حُسن و جمال کے
علاقے میں داخل ہوں تو ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے بنا ہتھیار کے سپاہی کو جنگ کے
میدان میں دھکیل دیا جائے کے جائو بھئی اپنی ذبان درازی کے جوہر دکھائو سامنے کھڑے
دشمنوں کو۔ ۔ ۔ ۔(ویسے ہم اپنے موضوع سے پھر سے پھر گئے ہیں واپس آئیے بیوٹی پارلر
کے اندورنِ خانہ ہونے والے واقعات و معجزات و حادثات کی طرف)
تو آج آپ کو خیال آیا ہے پارلر جانے کا مطلب کے اپنے منہ کو
چار نہیں تو کم از کم ڈیڑھ چاند تو لگوانے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔اب وہاں
موجود تمام عملہ آپ کو ایسی نگاہوں سے سر سے پیر تک دیکھتا ہے جیسے ایک بار پولیس
بھرتیوں کے دوران ایک اندھا شخص وہاں پہنچ گیا تھا اور جب پوچھا گیا کے
"میاں تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"
(تو ڈھیٹ اسٹوڈنٹ کی طرح بڑے آرام دہ انداز میں جواب دیا)
''میں اندھا ہوں اور آپ کی فورس کی طرف سے اندھا دھند
فائرنگ کرنے کے لیے سو فیصد اہل ہوں"
ہاں تو میک-اپ آرٹسٹ بھی کچھ ایسے ہی آپ کو دیکھ کے نظروں
نظروں میں ایکسرے کرتی ہیں کے کیسے آنے ہوا مطلب کے آئیے جناب آپ کی شکل جسے دیکھ
کے آپ کے عزیز بے ساختہ کہتے ہیں
"نہ منہ نہ متھا تے جن پہاڑوں لتھا"
کو ہم اپنے ہاتھوں کے جادو سے ایسا بنا دیں کے باہر نکلتے
ہی پہلی نظر دیکھنے کے بعد ہر شخص آپ کو کہے
"پہلی نظر میں کیسا جادو کردیا(واہ واہ واہ)"
ویسے ایسا منظر فلموں ڈراموں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے کے ادھر آپ میک-اپ کر کے
باہر نکلے اور اُدھر کسی کے دل کے تار چھیڑ دیے۔ ۔ ۔ ۔
پھر منہ کو کبھی مشرق تو کبھی مغرب۔ ۔ ۔کبھی گرم پانی تو
کبھی ٹھنڈے پانی۔ ۔ ۔کبھی اس لوشن تو کبھی اُس کریم۔ ۔ ۔ کبھی اس دھاگے تو کبھی
اُس دھاگے سے۔ ۔ ۔ناپ تول کے۔ ۔ ۔دھیان سے ۔ ۔ ۔ اطمینان سے۔ ۔ ۔درست قبلہ رُخ
کرنے کے بعد آپ کو اپنا رُخِ روشن آئینے میں دیکھنے کی درخواست پیش کی جاتی ہے جسے
آپ دھیرے دھیرے آنکھوں کو کھول کے سامنے کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں
اب ملاحظہ ہوں آپ کی رائے عامہ کی طرف۔ ۔ ۔ہر انسان دوسرے
انسان سے مختلف ہے اس لیے ہر انسان کی
رائے بھی مختلف ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ملاحظہ کیجیے ذرا
''ایک لمبی خاموشی اور دھیمی مسکان(یہ رائے سیدھی سادھی
خواتین کی ہوتی ہے اور اکثر خود پسند خواتین بھی یونہی رائے دیتی نظر آتی ہیں)
''اوووو وائو (یہ رائے ہوتی ہے ان خواتین کی جو ذرا سی توجہ
پہ ہی قلفی کے جیسے منہ میں جانے سے پہلے پگھل کر زمین پر ڈھے جاتی ہیں)
''ارےےے کمال یار کیا میک-اپ کیا ہے(یہ رائے ان کی جانب سے
موصول ہوتی ہے جو اتراتی بہت ہیں خود پر )
''ہممم باقی سب سیٹ ہے بَٹ یہ کیا یار یہ آنکھوں کا میک-اپ
بالکل بھی اچھا نہیں کیا(یہ رائے دی جاتی ہے ان کی جانب سے جنہیں میک-اپ کی سمجھ
بوجھ شاید بیوٹی پارلر والوں سے ذیادہ ہوتی ہے اور انہیں قابو کرنا جوئے شیر لانے
کے مترادف ہوتا ہے ایسی خواتین بپھرے بیل کی طرح کبھی اس ذاویے تو کبھی اُس ذاویے
پر سخت الفاظ کے ہتھیار سے لیس حملہ کرتی ہیں)
''کیسا لگ رہا ہے ٹھیک ہے ؟(یہ سوال وہ خواتین کرتی ہیں جو
کرکٹ ٹیم میں پندرویں کھلاڑی کے برابر کی حیثیت کی مالک ہوتی ہیں اس لیے انہیں
یقین دلانا پڑتا ہے اور یوں اکثر کندھے پر آہستہ سے کسی رومینٹک سین کی
عکاسی کرتے ہوئے آئینے میں ان کی سہمی
سہمی نگاہوں میں اپنی پُر اعتماد نگاہیں
گاڑ کےدھیمے لہجے میں تسلی دینی پڑتی ہے
''ماشائ اللہ زبردست لگ رہی ہیں۔ ۔ ۔دیکھتے ہی لوگ فدا ہو
جائیں"(اللہ بچائے اسّی فیصد یہاں جھوٹ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے مگر رزق کے
لیے یہ کرنا پڑتا ہے اتنا تو سبھی کہتے کے کرنا پڑتا اور اگر انہیں کہا جائے کے
ایسے جھوٹ نہ بولیے تو جواب ملتا ہے)
''کسی کا دل رکھنا بھی ایک آرٹ ہے اور ثواب والا کام بھی
ہے"
ویسے چلیں جی چھوڑیں آپ کونسا نارمل لائف میں جھوٹ نہیں
بولتے۔ ۔ ۔آپ سے جب پوچھا جائے کے "بتائو میں کیسی لگ رہی/رہا ہوں" تو
آپ ذیادہ تر یہی نہیں کہتے "ارے واہ یار غضب ڈھا رہی/رہے ہو"
کرنا پڑتا ہے یار ہم سب کو۔ ۔ ۔ورنہ کون ہے جسے جواب میں
سننے کو ملے
''دُر فٹے منہ۔ ۔ ۔توبہ توبہ کیا دیکھ لیا۔ ۔ ۔دفع دور سارا
موڈ خراب کردیا۔ ۔ ۔مت پوچھو نا یہ سوال"
اب ایسے اگر آپ کسی کو کہیں گے تو سامنے والے کو مولا جٹ
بننے میں ایک سیکنڈ نہیں لگتا اور آپ کو لہولہان ہونے میں ایک پل نہیں لگتا ۔ ۔ ۔
اس لیے امن کے سفیر بنتے ہوئے آپ کو جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔
ورنہ رشتوں کی نازک ڈور ایک پل میں ٹوٹ جاتی ہے ذرا سی کوجی
شکل کی تعریف کر دینے میں اگر رشتے قائم ہیں تو کر دیجیے یہ کام مکھن کی ایک
موٹی تہہ لگا کے ۔
۔ ۔ ۔ ورنہ بھئی یہ آپ کا حق ہے جسے چاہیں اپنے ساتھ رکھیں اور جسے چاہیں چار
لفظوں میں سچ بتا کے دور کردیں۔ ۔ ۔ ۔خیر جو کرنا ہے آپ کو کریں میں کون ہوں آپ کو
کچھ کہنے والی۔ ۔ ۔میری بلا سے یہ کریں یا میری بلا سے وہ کریں۔ ۔ ۔جو کرنا ہے
کریں ساتھ میں بس ایک کام کریں کہ اب میری
جان چھوڑیں اور ہاں پچھلی بار کی طرح اب بھی کہے دیتی ہوں اگلے مضمون کے لیے
انتظار کر کے مجھے بلاوجہ موٹی موٹی گالیوں سے نواز کے خود کو گنہگار مت کیجیےگا۔
۔ ۔میرا کیا جائے گا بلکہ بایاں فرشتہ جو کاپی پینسل لیے بیٹھا ہے وہی دھڑا دھڑ
اپنی کاپی پر آپ کے گناہ لکھ کے اوراق کالے کرے گا۔ ۔ ۔ ۔
خیر جایئے اب نکلیں یہاں سے
اور
ہاں کیسا لگا آج کا
مضمون ؟"(اب برا کہہ کے ایویں لڑائی نا کیجیے گا)
"کیا آگے بھی آپ میرے مضامین پڑھنا چاہیں گے؟"(جیسے آپکی
مرضی پہ میں نے چلنا ہے)
چلیں آب مجھے اجازت دیجیے ۔ ۔ ۔ خدا آپ کی حفاظت کرے۔ ۔
۔آمین
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Comments
Post a Comment