Ehsan ka badla by Noor Fatima

احسان کا بدلہ

نورفاطمہ

جنگل میں ہر طرف ہو کا عالم تھا، سب جانور مزے سے سو رہے تھے لیکن۔۔۔۔۔۔۔ جنگل کا بادشاہ ابھی تک کروٹیں لے رہا تھا۔ شیر کو بہت زور کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ بھوک کی وجہ سے اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اٹھ کر اپنے لیے شکار ڈھونڈھتا۔

"مجھے پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے چاہیے ورنہ میں مر جاؤں گا۔"

شیر نے سوچا اور آہستہ آہستہ اٹھ کر اپنے کچھار سے باہر آنے لگا۔

وہ آہستہ آہستہ چل رہا تھا جب اچانک اس کا پاؤں کسی نوکیلی چیز میں پھنس گیا۔

اس نے بہت کوشش کی کہ اپنا دامن چھڑا لے لیکن بے سود۔

وہ پہلے ہی بھوک کی وجہ سے نڈھال ہو رہا تھا اور اب ایک اور مصیبت آ گئی تھی۔اس کا حلق خشک ہو گیا تھا۔

"مجھے آواز لگانی چاہیے شاید کوئی سن لے اور میری مدد کو آ جائے۔"

شیر نے ایک بار پھر پاؤں آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہوئے سوچا۔

شیر بہت زور سے دھاڑا۔ لیکن کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آیا۔

ایک شکاری اس جنگل سے گزر رہا تھا، اس نے جو شیر کی دھاڑ سنی تو وہ اس جانب متوجہ ہو گیا جدھر سے آواز آئی تھی۔

لاشعوری طور پر اس کے قدم آواز کی سمت بڑھنے لگے۔

وہ جب قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ شیر کا نقاہت سے برا حال ہے اور اس کا پاؤں بھی کسی چیز میں الجھا ہوا ہے۔

وہ جلدی سے آگے بڑھا اور شیر کا پاؤں آزاد کروایا۔

شیر اپنے محسن کو دیکھنے کیلئے اٹھنے لگا تھا لیکن اس سے اٹھا نہ گیا۔

شکاری کو شیر کا مسئلہ سمجھ آ گیا وہ جلدی جلدی شکار کرنا چاہتا تھا تاکہ شیر کا پیٹ بھر سکے۔

جلد ہی اس نے شکار کیا اور گوشت لے کر شیر کے پاس آ گیا اور گوشت شیر کے سامنے رکھ دیا۔

شیر جو بھوک سے مرنے کے قریب تھا گوشت دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ اس کو جلدی جلدی کھانے لگا۔

شکاری وہاں کھڑا سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ اسے یہ بھی خوف نہیں تھا کہ اگر شیر نے اس پر حملہ کر دیا تو وہ کیا کرے گا۔

شیر نے جب پیٹ بھر لیا اور منہ اٹھا کر اوپر دیکھا تو اسے شکاری کھڑا نظر آیا۔

دونوں کی آنکھیں ملی تو ایک لمحہ کیلئے شکاری کو خوف محسوس ہوا لیکن پھر اس نے دیکھا کہ شیر اس کی طرف دیکھ کر واپس مڑ گیا ہے۔ شیر نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اس شکاری کیلئے دعا کی۔

شیر اپنے کچھار میں آ کر آرام سے سو گیا۔

                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس واقعہ کو ایک سال گزر گیا۔ ایک دن جنگل میں کسی خطرناک گروہ کا گزر ہوا اور وہ شیر کو ایک پنجرہ میں بند کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔

ایک ہفتہ تک شیر کو بھوکا رکھا گیا، پھر اچانک ایک دن ایک بھرے مجمعے میں شیر کو کھولا گیا اور پنجرے سے باہر نکالا گیا۔

شیر کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے اب کیوں نکالا گیا ہے؟؟؟؟ پھر اچانک اس کی نظر سامنے کھڑے ایک شخص پر پڑی وہ اس کو کھانے کیلئے آگے بڑھا لیکن اس کے قریب پہنچ کر رک گیا۔

سب لوگ شیر کی یہ حرکت دیکھ کر حیران رہ گئے۔

انہوں نے دیکھا شیر اس شخص کے پاؤں چاٹ رہا تھا۔

وہ وہی شکاری تھا جس نے شیر کو اس دن کھانا کھلایا تھا اور اس کا پاؤں اس زنجیر سے آزاد کروایا تھا۔

شیر نے اپنے محسن کو پہچان لیا تھا اور اس شکاری نے شیر کو۔

کچھ دیر شیر اس کے پاؤں چاٹتا رہا اور پھر جنگل کی طرف بڑھ گیا۔

سچ ہے کہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔

*************

Comments