نماز میں استقامت
کیسے؟
رومانہ گوندل
ہم سب ہی اپنی کچھ بری عادتوں سے پیچھا
چھوڑنا چاہتے ہیں کچھ اچھی عادتیں اپنانا چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے لمبے لمبے منصوبے بھی
بنائے جاتے ہیں ۔لیکن ساری کوششوں کے باوجود بدل نہیں پاتے ۔ ایک دن تو پورے جوش جذبے
کے ساتھ شروع کرتے ہیں جیسے ایک دن میں ہی انقلاب لے آ ئیں گئے۔ ، دوسرے دن بس نارمل
ہوتا ہے اور پھر آہستہ آ ہستہ وہی پرانی روٹین آ جاتی ہے۔ اسی کھیل میں کتنے فرائض
چھوٹ جاتے ہیں۔ نماز مسلمانوں کا اولین فرض ہے جس میں سستی کی کوئی گنجائش ہی نہیں،
لیکن آج کل اس فرض کی ادائیگی مسلمانوں پہ سب سے ذیادہ گراں ہے۔ اکثریت اس سے غافل
ہے اور اس پہ پیشمان ہونا یا پابندی کرنے کی کوشش کرنا تو دور، الٹا اس بات کو اعزاز
سمجھ لیتے ہیں اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم سے نہیں پڑھی جاتی۔ لیکن کچھ لوگ ایسے
بھی ہیں جو باقاعدگی سے نماز شروع کرنا چاہتے ہیں ،کئی بار دل سے ارادہ بھی کرتے ہیں
۔ ایک دو دن تو پورے اہتمام سے پڑھ بھی لیتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ جوش ما ند پڑ
نے لگتا ہے اور پہلی روٹین میں واپس آنے لگتے ہیں۔
شروع تو دل سے کرتے ہیں لیکن پھر ناغے آنے لگتے ہیں۔ سفر یا کسی تقریب میں
ہوں تو سوچتے ہیں کہ پہلے تو کبھی پڑھی نہیں تو اب یوں سب کے سامنے پڑھنا تو د کھاوا
ہے۔ کبھی خیال آتا ہے یہ کوئی نماز نہیں ہے جس میں دل ہی نہیں لگتا۔ کچھ لوگ اس لیے
نہیں پڑھتے کیونکہ ان کے خیال میں وہ اچھا وضو نہیں کر پاتے اور صفائی کا خیال نہیں
رکھ سکتے۔ آج کل پڑھا لکھا طبقہ یہ بھی کہتا نظر آتا ہے ۔ چونکہ انہیں عربی سمجھ ہی
نہیں آتی تو پھر رٹے رٹائے الفاظ ادا کرنے کا کیا فائدہ۔ ان ساری باتوں سے اختلاف نہیں
کیا جا سکتا، کیونکہ ایسی نماز جس میں نہ دل لگتا ہو، نہ مطلب پتا ہو، ذہن دنیا اور
لوگوں کے خیالوں میں گم ہو اور ذبان سے محض الفاظ کی ادائیگی ہو رہی ہو ۔ اس کا موازنہ
اس نماز سے بنتا ہی نہیں جس میں ایک ایک لفظ توجہ سے پڑھا جائے ۔ صرف ظاہر نہیں ، باطن
بھی اس نماز کا حصہ بنے ۔ سر جھکے تو دل بھی عاجزی سے جھکا ہو۔ جو ذبان سے ادا ہو رہا
ہو وہ محض صرف رٹا نہ ہو بلکہ اس کا مطلب بھی پتا ہو۔
لیکن ان میں سے کو ئی بھی جواز اتنا مضبوط
بھی نہیں ، جو نماز چھوڑنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ کیونکہ نماز فرض ہے ، کیفیت فرض نہیں
ہے۔ جس طرح جسم کو زندہ اور صحت مند رہنے کے لیے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح روح
کو بھی ہوتی ہے ۔ اگر کھانا مزے دار نہ لگے تو بھی زندہ رہنے کے لیے کھایا جاتا ہے
کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خوراک جسم کی ضرورت ہے لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے کہ روح کو
بھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور روح کی غذا نماز ہے۔ جس کی ہم پروا نہیں کرتے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہے کہ نماز فرض ہے ، ہر حال میں، ہر جگہ ۔ چاہے فوکس
کے ساتھ نہیں پڑھ رہے ۔ چاہے عربی سمجھ نہیں آ رہی ۔ چاہے صفائی کا خیال نہیں رکھ پا
رہے ۔ چاہے لوگوں کو دیکھ کے دکھاوا آجاتا ہے پھر بھی ہر حال میں نماز پڑھنی ہے ۔عبادت
سمجھ کے پابندی نہیں ہو پا رہی تو عادت سمجھ کے کر لیں۔ لیکن وقفہ نہ آنے دیں ۔ پتا
ہے کیوں ؟ کیونکہ پانچ وقت ایک خاص پوزیشن میں کھڑے ہونا استقامت ہے اور استقامت کے
بغیر کوئی منزل نہیں ملتی ۔ یہ سارے وسوسے شیطانی ہوتے ہیں تو بجائے اس کے کہ ان بہکاﺅں
میں آ کے نماز چھوڑ دی جائے اور جیت شیطان کی ہو۔ اپنے راستے پہ استقامت سے چلتے رہنا
چاہیے۔
اگر نماز میں استقامت آ گئی تو باقی تبدیلیاں
خود بخود آتی جائیں گی، دل بھی لگنے لگے گا، وضو بھی ٹھیک ہونے لگے گا، مطلب بھی سمجھ
آنے لگے گا۔ نماز غسل ہے گناہوں کا تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ دن میں پانچ بار غسل
کیا جائے اور انسان صاف نہ ہو۔ ذرا ذرا ہی سہی تبدیلی آئے گی، بشرطیکہ قائم رہے لیکن
اگر ان وہموں کا شکار ہو گئے تو کبھی وہ وقت نہیں آئے گا جب ایک مکمل نماز شروع کریں
گئے او ر اسی طرح زندگی گزر جائے گی۔ راستہ چھوڑ دینے کا مطلب بھٹک جانا ، کبھی کوئی
تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس لیے درست راستہ چن لیں اور گرتے پڑتے ہیں سہی اس پہ چلتے رہیں
، لیکن اس پہ قائم رہیں ۔ کائنات پہ غور کریں تو یہی سبق ہے۔ سورج نکلتا ہے ، پھر عروج
پہ پہنچ کے ڈھل جاتا اور نئے دن پوری آب و تاب سے نکل آتا ہے۔ چاند بھی گھٹتا بڑھتا
رہتا ہے ۔ لیکن کوئی بھی کسی بھی صورت میں اپنا سفر روکتے نہیں ہیں۔ تو پھر انسان ہمیشہ
ایک حالت میں کیسے رہ سکتا ہے ؟ اس پہ بھی مختلف حالیتیں آئیں گی، کبھی عبادتوں میں
دل لگے گا ، عروج کی سفر ہو گا ا ور کبھی تنزلی کی طرف آئے گا۔ لیکن پھر عروج کی امید
تب ہی رہے گی جب اپنا سفر ہر حالت میں جاری رہے گا۔ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راز
استقامت سے کھڑے رہنے میں ہی ہے۔
*********************
Comments
Post a Comment