"ایک دن وومن یونیورسٹی
میں"
از قلم: سیدہ صغریٰ غازی
(فاریہ فاطمہ)
کسی نے کیا خوب کہا ہے(اللہ جانے کہنے والے اور سننے والوں
کو) جانے دیجیے مجھے نہیں معلوم کے کس نے کیا کہا ہے۔۔۔لیکن آج جو میں آپ سے کہنے
جا رہی ہوں۔ ۔ ۔ نہیں بلکہ میں تو لکھنے جا رہی ہوں۔ ۔ ۔اور اس کو پڑھنے کے بعد
امید کرتی ہوں آپ کے بڑے سے چہرے پر گورنمنٹ کی پالیسیز سے لے کر آپ کے گلی محلّے کے ہر ایرے غیرے، شریف بوڑھے
بابوں اور کالج اسکول کے آوارہ اور سلینسر کے بغیر بائیک کو دھوم مچالے
کے گانے پر گھوڑے کی اسپیڈ کو مات دیتے ہوئے چلانے والے بدمعاش لڑکوں، نکڑ پر موجود کریانہ اسٹور
اور ساتھ گرما گرم چپس کی ریڑھی لگانے والے انکل کی کرپشن تک جتنے اور اسی قسم کے
آپ کو اندرونی اور بیرونی مسائل اور بتائے اور نہ بتائے جانے ولی بیماریوں تک کی
پریشانیوں تک کی تمام فکروں اور غموں کو کچھ دیر تک آپ بھول جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔
تو چلیے شروع کرتے ہیں ہماری تحریر کو جس کا عنوان کچھ یوں
ہے۔ ۔ ۔"ایک دن وومن یونیورسٹی میں"
آپ اس ٹائٹل کو زیادہ سر پہ سوار مت کیجیے جو لکھوں گی اسے پڑھیے۔ ۔
ہم وومن یونیورسٹی کے مین گیٹ سے لے کر آخری ڈیپارٹمنٹ کی
بالکل آخری والی جماعت کی خستہ حال تھوڑی بہت کرسی کی شکل کی تشریف رکھنے والی شے
تک۔ ۔ ۔ایک ایک چیز کا اچھے سے جائزہ لیں گے۔ ۔ ۔ باہر سے وسیع و عریض رقبے پر
پھیلی یونیورسٹی کے مین گیٹ کا صبح سویرے کا منظر
کچھ یوں ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔
گیٹ پر صحت مند موٹے تازے(کہنا تو نہیں چاہیے لیکن چونکہ
سچائی کا سوال ہے تو معذرت) لمبی لمبی مونچھوں کو تائو دیتے بہ مشکل اپنے یونیفارم
کی شرٹ کے بٹن جو کسی بھی وقت پیٹ کے بند وال کُھلنے کی وجہ سے ٹوٹنے کو بے تاب
ہوتے اپنے صبر پر پہرے بٹھائے ہوتے ہیں یہ محترم انہیں سنبھالتے ہوئے گیٹ پر سائیڈ
پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ ۔ ۔صبح سویرے زیادہ تر یہی صاحب مست ماحول اور خوش باش
دکھائی دیتے ہیں کیونکہ نا تو انہیں کوئی ٹیسٹ دینا ہوتا ہے اور نہ ہی سو پچاس کی
کلاس کو پڑھانا ہوتا ہے انہیں صرف آنے جانے والوں پر اپنی نظروں کے تیر چلانے ہوتے
ہیں۔ ۔ ۔ ۔اور سیکیورٹی کے نام پر جو گن وہ کندھے سے لٹکائے ہوتے ہیں جس کی حسین
نال ان کی کمر پر کسی خوبصورت دو شیزہ کے سیاہ بالوں کی گھنی آبشار کے جیسے یہاں
سے وہاں کمر پر بَل کھارہی ہوتی ہے اُسے یہ خاص کوئی لفٹ نہیں کرواتے۔ ۔ ۔وہ قدیم
زمانے کی گھڑیال کے پینڈولم کی طرح محترم کی پوری ڈیوٹی کے دوران یہاں سے وہاں
جھولتی رہتی ہے۔ ۔ ۔
ایک لڑکی یونیورسٹی گیٹ کے سامنے بائیک پر اپنے ابّا کے
ساتھ آئیں اور بھاگ کر محترم کے قریب آئیں اور ٹائمنگز کے بارے میں سوال کیا اور
ابّا کو ٹائم بتا کر اندر چل پڑی۔ ۔ ۔
اب اندر کا منظر ملاحظہ کیجیے ذرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک طرف بینچز ہیں
جس کے پچھے دیوار پر ٹوٹی پھوٹی گھڑی جس پر شیشہ نہیں ہے (کیونکہ شیشہ ایک نشہ ہے اور
نشہ حرام ہے۔ ۔ اگر آپ کے تعلیمی ادارے میں موجود گھڑی شیشے سمیت ہے تو آپ خود کو
خوش قسمت مت تصور کیجیے کینوکہ شیشے سے زیادہ وقت دیکھنے سے مطلب ہونا چاہیے)
ہاں جی تو وائٹ یونیفارم میں طالبات ہیں۔ ۔ ایک طرف مانیٹرز
ہیں تو دوسری طرف تین چار استانیاں اپنے گھریلو مسائل کا پنڈورا باکس کھولے کھڑی
ہیں۔ ۔ ۔
اگر تو آپ شکل سے شریف لگتی ہیں تو یہ آپ کے حق میں بالکل
بھی بہتر نہیں کیونکہ مانیٹرز اور استانیاں آپ پر الگ طرح کی نظر رکھے ہوں گی۔ ۔
۔کیونکہ آپ شریف دِکھ رہی ہیں نا۔ ۔ ۔موبائل لانا منع ہے۔ ۔ ۔میک-اَپ پر بھی
پابندی عائد ہے۔ ۔ اور سفید کفن یونیفارم کے علاوہ باقی کالا کالا ہے سب مطلب یہاں
بلیک اینڈ وائٹ پرانے ٹی-وی کے رنگوں جیسے۔ ۔ ۔کالی پونی۔ ۔ ۔کالے جوتے۔ ۔ بس ایک
بستہ آپ کا دنیا جہاں کے رنگوں کی آماجگاہ ہو کوئی مسلئہ نہیں ہوگا۔ ۔
''اوئے نیلی پونی والی رکو (یہ آواز اور اس سے ملتی جلتی
آوازیں آپ کے چلتے قدموں کو بریک لگوا دیتی ہیں)
''اوئے پرپل اسکارف اتارو یہ اسکارف۔ ۔ آپ کو نہیں پتا صرف
سفید اور کالے اسکار ف کی اجازت ہے آپ کو
''سوری میں کل یہ نہیں پہن کر آئوں گی
''وہ آپکی مرضی ہے فی الحال تو اسے اتاریے (اسپاٹ لہجے میں
جواب دیا گیا)
''اوئے گلابی موزے ادھر آئو نا ذرا یہ کیا آپ کو پتا نہیں
یہ کس رنگ کے موزے پہن رکھے ہیں آپ نے ؟؟
''آئم سوری میم وہ دوسرے دھلے ہوئے تھے
''تو۔ ۔ ۔عجیب بہانے گھڑتے ہیں آپ لوگ
''او ئے سنو۔ ۔ ۔اوئے او ہیلو۔ ۔ ۔یہ بُلانا اس ملکہ کو
''ج ج ججی جی میم
''کیا جی جی۔ ۔ سنائی نہیں دیتا آپ کو ؟ (لو جی میڈم جی کا
پارہ ہائی ہونا شروع)
''یہ کیا نیل پالش لگا رکھی ہے تم نے توبہ توبہ کبھی نماز
پڑھی ہے تم نے ؟۔ ۔ ۔ ۔استغفار استغفار
''میم (طالبہ منمنائی)
''بس کریں۔ ۔ ۔ آپ سنیں بشرہ ان سے فائن لیں( مانیٹر کو حکم
دیا گیا) روز روز ایک ہی غلطی کرتی ہیں یہ جانے کیا دین ایمان ہے ان محترمہ کا
''بالکل صحیح کہا تم نے فہمیدہ
(ساتھ کھڑی میڈم جی نے لقمہ دیا ساتھ میں پاس سے گزرتی ایک
طلبہ کو نشانہ بھی بنا ڈالا) اب یہی دیکھ لیں اس مخلوق کو کیسے بالوں کی مائونٹ
ایورسٹ بنا کے آئی ہے۔ ۔ ۔ ''اے رکو تم ادھر آئو نا اتنا ٹائم مل جاتا ہے تمہیں یہ
کیا سرکس کرنے آئی ہو تم؟
(پھر ان دونوں طالبات کو بلا معاوضہ لیکچر سنانے کے بعد
مانیٹر جلوہ افروز ہوئیں قریب میں۔ ۔ اپنی مخروطی انگلیوں میں ٹَچ موبائل کو نازکی
سے تھامے جیسے نومولود بچہ پکڑے ہوئے ہے۔ ۔ ۔پیچھے پیچھے اس کے آنکھیں ماتھے پر
چڑھائے اس نومولود کی تڑپتی ماں بھی آتی ہے)
''میم یہ موبائل لے کر آئی ہیں اور اب بحث بھی کر رہی ہیں (ساتھ
میں تیرہ مصالحوں کی چٹ پَٹی چَٹنی بنا کے اس تڑپتی مامتا کی بول چال میم کے گوش
گزار کی اور میم جی کا تھوڑا بہت بچہ ہوا صبر کا پیالہ اب چھلک چکا ہوتا ہے آخر
صبح سویرے کون ایسے ڈیوٹی دینا پسند کرتا ہے۔ ۔ ۔ہر آتے جاتے پر کڑی نظر رکھنا
آسان تھوڑی ہوتا ہے)
''میم مجھے آج گھر سے واپسی پر لینے کے لیے کوئی نہیں آئے
گا اسی لیے راستے میں رابطے کے لیے لائی ہوں (مامتا کا سرد لہجہ روحانی والدہ کو نہ
بھایا اور پھر ایسا لیکچر سنایا کے کیا ہی کبھی جماعت میں بھی سنایا ہوگا میڈم جی
نے)
ویسے یہ بھی بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کے بعض اوقات گیٹ پر
نظر بازی کی ڈیوٹی ایسی استانیوں کے ہاتھ بھی آجاتی ہے جنہیں گھر میں کوئی خاص
پوسٹ نہیں دی جاتی اسی لیے وہ اپنے گھریلو معاملات کوڈسکس کرتی پوری دیوٹی سر
انجام دے ڈالتی ہیں۔ ۔ ۔اور پاس سے چاہے آٹے کی بوری میں منہ دے کے چہرے کو پُرنور
بنائے طالبات گزرتی جائیں انہیں تو کوئی ہوش نہیں ہوتی۔ ۔ ۔وہ تو بس اپنے دکھڑے
روئے جاتی ہیں۔ ۔ ۔
اب اگلا مرحلہ آتا ہے آپ کا سہلیوں سے ملنے ملانے کا (لیلیٰ
اور مجنوں نے بھی کیا عشق لڑایا ہوگا جو سہیلیاں صبح سویرے ایک دوسرے کے یونیورسٹی
آنے پر خوشی کے گیت گاتی سنائی دیتی ہیں)
باتیں کرتے کرتے دیوار سے ٹیک لگائے یا بینچ پر بیٹھے بار
بار گھڑی کی ٹِک ٹِک کرتی سوئیوں کو بے قراری سے تکتے نگاہ جو سامنے اٹھی تو پلٹنا
ہی بھول گئی
''یاہُووووووو۔ ۔ ۔علیزہ آگئی۔ ۔ شکر ہے خدا کا مجھے لگا تم
آج چُھٹی کرنے کے موڈ میں ہو (پورے گروپ میں آپ کی آمد پر ایک سچے دل سے خوش ہوتی
ہے۔ ۔ایک آدھے پورے دل سے جبکہ کسی کے لیے آپ نا تین میں نا تیرہ میں ہوتی ہیں)
''کہاں یار اماں کروا ہی نا دیں کبھی مجھے چُھٹی(ایسے ٹھنڈی
آہ بَھر کے کہا کے شاید ہی کوئی دیہاڑی دار مزدور بھی آہ بھرتے ہوں گے)
پاس سے گزرتی ہم جماعت کے ہاتھ میں پکڑے نوٹس کے پلندے پر
نظر پڑی تو ایسے ہی پوچھ لیا
''یہ کیا تم صبح سویرے مطالعئہ پاکستان پڑھے جا رہی ہو
''کیوں کوئز دینے کا ارادہ نہیں تم سب کا(ان کوئز سے انجان
بچیوں کے سر پر نیوکلر بَم پھوڑنے کے بعد بغیر کسی معافی تلافی کے وہ جنابِ عالیہ آگے بڑھ گئیں جبکہ پیچھے کھڑی رہ
جانے والی ہونق طالبات کی ٹولی اونگی
بونگی شکلیں بنانے میں مصروف ہو جاتی ہیں)
''کیا واقعی میں آج کوئی کوئز تھا
''تھا نہیں یار ہونے والا ہے (اردو ادب کی بے تاج بادشاہ نے
تصیح کی)
''ہاں وہی لیکن میم نے یہ کب کہا مجھے یاد نہیں
''تمہیں صبح کا کیا ناشتہ یاد نہیں رہتا میم کی کہی کل کی
بات کیسے یاد رہے گی(ایک اور سہیلی نے کہا جس پر سخت نظروں کا اسے سامنا کرنا پڑا)
''رکو یہ آسیہ آرہی ہے اس سے پوچھتے ہیں (سامنے سے آتی ایک
اور ہم جماعت کو دیکھ کے پہلی سہیلی نے کہا)
''ہاں یہ ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ہیلو آسیہ
''اسلام و علیکم (لوجی ہوگئی صبح سویرے بے عزتی جس پر ساتھ
کھڑی سہیلیوں نے چند لمحوں کے لیے پیلے بلب کے جیسے چکمتے دانتوں کی نمائش کی)
''وعلیکم اسلام اچھا یار یہ بتائو آج کوئی کوئز ہے مطالعئہ
پاکستان کا؟
''ہاں ہے نا سبق نمبر پانچ کا کیوں کیا ہوا؟
''یار لیکن میم نے کب بتایا تھا
''پرسوں کلاس سے جاتے ہوئے کہا تھا
''یارررر اب کیا کریں
''تیاری کرو اور کیا فرسٹ پیریڈ میں ہے ان کا کوئز
''چلو ٹھیک ہے تھینک یُو(آسیہ ان کو وہیں چھوڑے آگے بڑھ گئی
اور اب وہ اگلا لائحہ عمل تشکیل دینے میں جُت گئیں)
''یار اب نکالو کتاب اور مارو رَٹا ورنہ میم قیصرہ کا معلوم
ہے نا آدھا گھنٹا ذلیل کرنے کے بعد جماعت سے باہر نکال دیتی ہیں
''سو واٹ؟ مجھ سے نہیں ہوتا یہ مطالعہ شطالعئہ اس لیے میں
نہیں کر رہی (ایک نے فوراً سے ہتھیار ڈال دیے جبکہ باقی کے سپاہی تیاریوں میں مگن
ہو گے۔ ۔ ۔ایسے رَٹے مارتے جب وہ کلاس میں آئے تو بوکھلائے ہوئے چہرے ندارد۔ ۔ ۔
پوچھنے پر پتا چلتا
ہے مانیٹر صاحبہ کو رات گئے میسج پر کوئز کینسل کرنے کا میڈم جی بتا چکی ہیں
کیونکہ آج وہ چُھٹی پر ہیں۔ ۔ ۔اور اس دس پندرہ منٹ میں خون خشک ہونا کا ذمہ دار
کون ظاہری سی بات ہے میڈم جی اور یونیورسٹی کا عملہ۔ ۔ ۔ ۔پھر غور کرنے پر پتا چلا
کے کل دوسری میڈم نے ایک مضمون گُوگل نانو سے لکھوا کے لانے کا کہا تھا تو وَن ٹُو
تھری سب اگلے مشن امپاسیبل میں لگ گئے یعنی چھاپہ سینٹر کُھل گیا۔ ۔ ۔کسی کی کاپی
کسی کا پین اور کام اپنا دھڑا دھڑ چھاپے مارنے کے بعد پہلا پیریڈ گزرا اور دوسری
میڈم جی آئیں اور مور چال چلتی عین جماعت کے وسط میں کھڑے ناک کے سامنے مکھیاں
اڑانے کے انداز میں بے زار سی آواز نکال کے کہنے لگیں
''ای ی ی ی کیا
چیزیں ہو تم۔ ۔ ۔کبھی نہائے بھی ہو تم لوگ۔ ۔ ۔عجیب پسینے اور پرفیوم کی مِلی جُلی
خوشبوئوں سے اس چند قدم پر ختم ہوجانے والی جماعت کو معّطر کیے رکھتے ہو ہر دم۔ ۔
۔میں بتا رہی ہوں کل سے اگر سب نہا کر نہ آئے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ ۔ ۔(اس لیکچر کے بعد احسان جتاتے ہوئے
تھوڑا بہت پڑھابھی دیتی ہیں اور جو کام دیا تھا وہ ان کے وہم و گمان میں نہیں رہتا
اور جس ٹاپر کو یاد رہ جاتا ہے اسے کوئی یاد کروانے کی غلطی کرنے پر طرح طرح کی
دھمکیوں سے بولتی بند رکھنے کی وارننگ دے چکی ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔
پھر آتی ہیں تیسری میڈم جنہیں بس کام سے مطلب ہوتا ہے چاہے
پچھلے دن چُھٹی پر ہی کیوں نا ہوں لیکن انہیں ایسے ہی لگتا ہے کے کل بھی کلاس لی
تھی
''چلیں جی وہ کھڑی ہوجائیں لڑکیاں جو آج کام نہیں کر کے
آئیں( گورنمنٹ کے اداروں کی ایک بات مشترکہ ہے اور وہ یہ کے سب کو دوسرے کے کام کی پڑی رہتی ہے لیکن اپنے
گریبان میں جھانکنے کی توفیق خدا نے انہیں سو میں سے ایک فیصد ہی دے رکھی ہوتی ہے)
''ارےے کھڑے ہوں سنائی نہیں دے رہا اگر میں نے چیک کرنا
شروع کردیا نا پھر اچھا نہیں ہوگا آپ کے حق میں(اچھا ایسے میڈم کی آواز مَسِیتی
میں لگے لائوڈ اسپیکرز سے کئی گُنا ذیادہ ہوتی ہے۔ ۔ ۔اپنی تو اپنی آس پڑوس کے
بسنے والے باسیوں کو مفت میں ان کی چیختی چھنگھاڑتی آواز مجبوراً سننی پڑتی ہے جس
کا اثر طالبات پر تو نہیں لیکن ساتھ والی جماعتوں میں پڑھاتی استانیوں پر ضرور
ہوتا ہے اور وہ بھی منفی انداز میں اور وہ اپنی کلاس کو پڑھاتے پڑھاتے بلا وجہ
سنانا شروع ہوجاتی ہیں)
''دیکھا بالکل درست فرما رہی ہیں میڈم۔ ۔ ۔ آپ سب ہیں ہی
نالائق جانے کیا مخلوق ہیں آپ سب۔ ۔ ۔عجیب اُڑے حواسوں کے ساتھ اِدھر اُدھر گرتی
پڑتی آپ لیکچر سنتی ہیں ایسا لگتا ہے زبردستی گھر والے دِھکے دے کر نکالتے ہیں آپ
سب کو کے جائو۔ ۔ ۔کچھ دیر کے لیئے جان چھوڑو ہماری وغیرہ وغیرہ جیسے بے شمار طعنے
اور طنز کے زیور سے مالا مال تقریر طالبات کو سنانے کے بعد ایک کولیگ کی کال آنے
پر (جس پر تمام طالبات شکر کے سجدے بجا لاتی ہیں) لیکچر کو بیچ میں آدھا ادھورا
چھوڑ کے اپنے آفس اور کلرک وغیرہ اور آنے والے فنکشن سے متعلق ڈسکن شروع کر دیتی
ہیں)
پھر آتا ہے بریک کا وقت جس میں سب طالبات کمر بستہ کینٹین
کا رُخ کرتی ہیں اور اپنی مخصوص جگہ پر روز کی طرح قبضہ جمانے کو دوڑی چلی جاتی
ہیں
(شادی بیاہ پر کھانا کُھلنے کے وقت کے مناظر آپ نے دیکھیں
ہوں گے کچھ ایسے ہی تعلیمی اداروں کی کینٹین میں دیکھنے کو ملتے ہیں خاص کر
گورنمنٹ کے اداروں میں)
پیٹ پوجا کرنے کے بعد بجائے فریش ہونے کے حواس باختہ بکھرے
حُلیے میں پانچ دس منٹ عادتاً دیر سے آتی ہیں اور وجہ پوچھنے پر قومی بہانہ گھڑ
دیتی ہیں
''میم واشروم میں تھی (بندہ پوچھے واشروم ہیں چار جن میں سے
دو کی کنڈی خراب اور ایک کی حالت خیر جانے دیجیے تو رہ گیا صرف ایک واشروم۔ ۔ ۔ تو
یہ ساری دیر سے آنے والی فوج اُس ایک واشروم میں تھی؟ عجیب ہے یعنی۔ ۔ ۔چلو یہ تو
مان لیتے ہیں ایک ہی میں یُوں گئے اور یُوں آئے والا کام کیا ہوگا لیکن واشروم میں
کون ہے وہ انسان جسے اکیس توپوں کی سلامی دینے کا جی چاہتا ہے جو واشروم میں چپس،
کّراکریاں اور سموسہ رول یا نان سموسمہ کا اسٹال لگاتا ہے کیونکہ سب کے ہاتھ میں
ایسی ہی کھانے پینے کی چیزیں ہوتی ہیں اور پھر چھپاتی ایسے ہیں کمر کے پیچھے جیسے کمر نا ہوگئ بلکہ سرکاری اداروں کو ملنے
والا فنڈ ہوگیا کے پُھر سے غائب)
پھر آتی ہیں وہ استانی محترمہ جو کسی تبلیغی جماعت کی سر
گرم رکن نا ہونے پر بھی ان کی طرف سے بلامعاوضہ طالبات کو اسلام کے علم سے ررشناس
کرتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔
جماعت میں داخل ہونے کے بعد پہلا جملہ
''ارے ارے بیٹھے رہیے ارے بیٹھے نا ایسے نا کھڑے ہوا کریں
مجھے اچھا نہیں لگتا بس سلا م کیا کیجیے ویسے بھی اصل عزت انسان کے دل میں ہوتی ہے
یہ تو ویسے ہی اُٹھک بیٹھک ہوتی ہے۔ ۔ (پھر کسی طالبہ کو دیکھا سر پکڑے تو
ہمدردانہ لہجہ بنا کے بولیں)
''ارے میرے بچہ کیا ہوا؟ طبیعت ٹھیک ہے(ماں بھی کیا پوچھتی
ہوں گی جو یہ حال احوال پوچھتی ہیں)
''بس میم ایسے ہی ذرا درد ہو رہا ہے (طالبہ نے اگلے پچھلے
تمام ریکارڈز بے دردی سے توڑے ہوئے نقاہت سے چُور آواز میں کہتی ہے اور میم جی کا
دل جو ویسے ہی کافی نازک ہوتا ہے ایسے پگھل جاتا ہے جیسے بڑے اافسر کو دیکھ کے
ماتحتوں کا)
''ارے تو آپ باہر چلی جائیں تازہ ہوا کھا کے آئیں
''ن نہیں نہیں میم(اب وہ بندی کیا باہر جائے جو صبح سے اپنی
سہیلی کے نہ آنے پر یونیورسٹی کی استانی سے لے کر چپڑاسی تک کو دل ہی دل میں موٹی
موٹی گالیوں سے نوازے جا رہی ہوتی ہے کیونکہ اگر میم آج اگر کوئز نہ دیا جاتا تو
وہ حاضر ہوتی اونہہ بس ٹیسٹ ٹیسٹ کی لگی رہتی ہے انہیں اور اس سہیلی کے بنا
بتائے چُھٹی کا ذمہ دار کون ظاہری سی بات
ہے استانیاں اور ان کا ادارہ۔ ۔ ۔سب ک سب ملے ہوئے ہیں یہ چاہتے ہی نہیں کے دوستی
جیسا خوبصورت اور ملاوٹ سے پاکیزہ رشتہ کہیں پر بھی پروان چڑھے)
یہ تو ہو گیا تمام جماعتوں کا احوال اب چلتے ہیں ذرا اسٹاف
روم کی جانب تو دیکھیے وہاں استانیاں کم اور ساس،بہو اور نند کے بھر پور رول ادا
کرتی اداکارائیں پائی جاتی ہیں
''ارے زکیہ تم یقین مانو میری نند کی عمر اب اللہ اللہ کرنے
والی ہے لیکن نہیں ایسے نرم و نازک بنی رہتی ہے کیا ہی
بالی وُڈ کی
ہیروئین ہوگی۔ ۔ ۔نِک سَک سی سولہ سنگھار کیے رکھتی ہے چاہے دن کا اجالہ ہو یا رات
کی تاریکی اُففف میں تو اسے دیکھ دیکھ کے سوچتی ہوں لوگ کیسے اپنی آخرت کو بھول
جاتے ہیں
(اپنی نند کی شان میں یُوں قصیدے پڑھنے والی ہستی خود پچپن
کی عمر میں ٹائٹ جینز پر لاہور کی اندرونے خانہ بنی تنگ و تاریک گلیوں کے جیسے
کرتا پہنے اور ڈوپٹہ کے بغیر ہوتی ہیں )
اسی وقت ایک طالبہ میم جی سے اپنی چُھٹی کی درخواست منظور
کروانے آتی ہے لیکن کوئی اسے اندر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ فی الحال
سبھی باتوں میں مگن ہیں
''یار کیا بتائوں ایسی فرسٹ کلاس بریانی بنائی تھی میں نے
''ارے میں کیسے یقن کر لوں میں نے چکھی تک نہیں
''یار بس وہ مہمان تھے ہی ندیدے ایسے ساری بریانی چَٹ کر
گئے جیسے یاجوج ماجوج کی نسل کے امین ہوں سب(برا سا منہ بنا کر کہا گیا) لیکن اگلی
بار تمہارے لیے ضرور لائوں گی
''مَے آئی کَم اِن میم(طالبہ نے ایک بار پھری صدا دی لیکن
نو لِفٹ کا چہرے پر بورڈ چسپاں کیے میم جی کہاں سنیں گی)
''یار وہ فائن آرٹس کی نازیہ دیکھی ہے توبہ توبہ ایسے اس دن
چیف گیسٹ سے بات کر رہی جیسے برسوں کے شناسا ہوں
''چھوڑو یار وہ تو ہے ہی ایسی ہر وقت نمبر بنانے کی فکر لگی
رہتی ہے اسے
''ہاں کہہتو تم بالکل ٹھیک رہی ہو
''میم (اس بار دروازے پر دستک بھی دے ڈالی اور عین سامنے بیٹھی
میم جی نے کڑے تیور دکھائے)
''کیا تکلیف ہے آپ کو کیوں کھڑی ہیں؟
''میم آپ سے بات کرنی ہے
''ہاں تو آئو کرو جلدی کب سے منہ اٹھائے وہاں دروازے کے بیچ
میں راستہ روکے کھڑی ہو (لو جی طالبہ کا حوصلہ ہوا ہو گیا۔ ۔ ۔خشک لبوں پر ہونٹ
پھیرتی وہ اندر کو آئی)
''میم یہ درخواست دینی تھی
''ہممم ادھر دکھائو۔ ۔ ۔ہیں ہیں یہ کیا دماغ درست ہے بھائی
کی شادی اور دو ہفتوں کی چُھٹی ہوش میں ہو تم؟
''میم وہ گیسٹ وغیرہ نے بھی آنا
''نا نا نا یہ کہو کے گپیں ہانکو گی بیٹھ گے تم۔ ۔ ۔بس کسی
طرح تم جیسوں کو پڑھائی سے جان چُھڑانے کا بہانہ چاہیے غضب خدا کا دو ہفتے
''کیا ہوا؟
''اررے دیکھو تو بھائی کی شادی اور دو ہفتے کی چُھٹی چاہیے
محترمہ کو
''ہیں نا تم کیٹرنگ کا کام کرتی ہو یا سجاوٹ وغیرہ کا دفتر
ہے جو دو ہفتے چُھٹی
''کوئی دو ہفتے نہیں صرف تین دن اور بس
''لیکن میم(بیچاری نے کچھ کہنا چاہا)
''میں یہ بھی کینسل کر دوں گی آئی سمجھ اب جائو(رُخ موڑ کے
ساتھ بیٹھی کولیگ سے کہنے لگیں) ہاں تو کہیں نا میم سے کے بھانجے کی شادی ہے چُھٹی
چاہیے بلکہ ساتھ میں کچھ بیماری کا بہانہ کریں اور پورا ماہ عیش کریں(واہ واہ کیا
کہنے ان کے قیمتی مشوروں کے)
اب چلتے ہیں طالبات کی طرف جو ٹولیوں کی شکلوں جہاں جگہ ملی
خانہ بدوشوں کے جیسے دھڑام سے بیٹھ گئیں
ایک سہیلی بولی
''اُففف تم کیسے دھوپ میں بیٹھی ہو ادھر ہوجائو
''بیٹھے رہنے دو فوٹو سینتھیسیز کروا رہی ہے(دوسری نے کہا)
''ہائے اب چُھٹی ہونے دو گھر پہنچتے ہی میں نے بستر پر دراز
ہو جانا اور سو جانا(پاس سے گزرتی ہم جماعت نے ہنس کے کہا)
''ہاں ویسے تو تم جیسے جاگی ہوئی ہوتی ہو(اس کی بات پر باقی
کی سہیلیاں ہنس ہنس کے دہری ہوئی جاتی ہیں کیونکہ ایک کی بے عزتی باقیوں کے لیے
ہنسی کا سامان ہوتی ہے اور یہ ہماری قومی عادت ہے کے پَلے کچھ نا بھی پڑے لیکن
گزرتے ہوئے ایک آدھ لقمہ دینا اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں)
پھر پاس سے گزرتی ہیں ایک استانی جنہیں آدھے گروپ نے سلام
جھاڑا اور باقی دائیں بائیں منہ پھیر گئیں
''میم کو سلام کیوں نہیں کیا؟
''ہاں جیسے تمہیں تو جواب مل گیا نا سلام کا کے ہم بھی
کرتیں
''وہ ان کا پرابلم ہے لیکن ہمیں سلام کرنا چاہیے دیکھو
اسلام میں۔ ۔ ۔ ۔
(ایک بھر پور لیکچر
کا آغاز ہوا چاہتا ہے گروپ میں ایسا بندہ ہر جگہ پایا جاتا ہے جو اسلام کا پرچار
اٹھتے بیٹھتے کرتا رہتا ہے آپ کے گروپ میں بھی ہوگا غور کیجیے گا)
ایک سہیلی کی فرمائش پر سب مراثی بن جاتی ہیں اور اس کی بے
قرار آتما کی شانتی کے لیے پَھٹے ڈھول جیسی آوازں میں الّم غلّم موسیقی کی محفل
شروع کر دیتی ہیں یہ سوچے اور دیکھے بغیر کے ساتھ بیٹھی بلی تک وہاں سے اٹھ کر نو
دو گیارہ ہو جاتی ہے کے کہیں کانوں کے ریشمی پردوں کے کنارے نا پَھٹ جائیں اور
قوتِ سمعائی ایویں ہی متاثر ہو جائے اور لینے کی دینے پڑ جائیں مطلب فری محفلِ
موسیقی بنا کسی ٹکٹ سے تو لُطف اندوز ہو جائو لیکن بدلے میں خسارا ہاتھ آئے)
پھر ایک سہیلی نے ایک انگڑائی لیتے ہوئے کہتی ہے
''یار آج میں لیٹ جائوں گی
''کیوں خیریت
''ہاں خیریت ہی ہے وہ پرسوں انکل نے مجھے لیٹ پِک کیا تھا
آف ٹائم پر اس لیے آج میں لیٹ باہر نکل کر انہیں اچھے سے سبق سکھائوں گی(یہ وہی
محترمہ ہیں جنہوں نے کوئز تو یاد کیا نہیں لیکن وین والے انکل کو سبق ضرور سکھائیں
گی)
پھر کیا سبھی لڑکیاں وین والے کی ایسی کی تیسی کرنا شروع
ہوجاتی ہیں۔ ۔ ۔عجیب ہے یعنی کے حد ہے۔ ۔
پھر کوئی کہتی ہے وین سے یاد آیا اُس دن نا ہم وین میں
بیٹھے ہوئے تھے اور ایک لڑکا پتا نہیں کس کالج کا تھا ہماری کالج کی لڑکی کو پھول
دے رہا تھا۔ ۔ ۔اللہ معاف کرے(یہ کہنے کی دیر تھی سب ہاتھ نچاتی وین والے انکل کو
مزید برا بھلا کہنے کا ارادہ ملتوی کرتی اینکر پرسن کا روپ دھار لیتی ہیں اور لوجی
شروع ہوا دیوارِ چین سے لے ٹرمپ کے گورے رنگ۔ ۔ ۔کراچی کی ٹارگٹ کِلنگ سے لے کے
لاہور کے چھانگا مانگا کے جنگل میں پائے جانے والے درختوں کی ساخت تک ہر بات ہر
نُکتے پر بحث چِھڑ جاتی ہے جس کا اختتام ہوتا ہے
یونیورسٹی انتظامیہ اور اس کے تمام عملے پر مثلاً
''میرے سر میں درد ہے میم کی آواز اتنی باریک ہے سر میں درد
کروا دیتی ہے
''میں نے ناشتہ نہیں کیا وین والا جلدی آجاتا ہے ایک تو یہ
ٹائم ٹیبل یونیورسٹی والوں سے ایک ٹائم ٹیبل تو ڈھنگ کا بنایا نہیں جاتا اور چلیں
ہیں ہمیں مستقبل کے معمار بنانے
''یار کیا تھا جو میم دو ہفتے کی چھُٹی دے دیتیں اپنی بار
معمولی سا ہاتھ فریکچر ہوا ڈیڑھ ماہ ریسٹ کیا تھا جھوٹے منافق ہیں یہ یونورسٹی
والے
''مجھے کل ماما سے اتنی ڈانٹ پڑی کیوں ۔ ۔ وہ اس لیے کے ان
کے بقول یونیورسٹی والے گدھا سمجھ کے کام دیتے ہیں اور میں گھر کے کاموں میں ان کا
ہاتھ نہیں بٹاتی صحیح سے یہ سب ان جاہل استانیوں کا کیا دھرا ہے خود تو اپنے بچے
پرائیویٹ سیکٹرز میں اور ہمیں کہتی ہیں کے خوش قسمت ہیں کے آپ کو یہاں ہمارے زیرِ
سایہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کا سنہری موقع ملا ہے ہنہ
''ہاں بھلا بتائو سُنیار کی دکان میں ایڈمشن لیا ہے ہے نا
ہم نے کے زیور سے آراستہ کریں گے ہمیں
ایسے ہی گِلے شکووں سے بھر پور لعن طعن کے لذیذ وٹامنز سے
لبا لَب بحث و مباحثے کا اختتام ہوا چاہتا ہے اور سب کو گھر پہنچنے کی جلدی لگ
جاتی ہے
(امید ہے وومن یونیورسٹی کا اندرونی احوال سن کر کچھ دیر کو
آپ سب بھول بھال گئے ہوں گے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو بھئی کوئی بات نہیں کچھ
لوگوں جانے کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں اُن پر کسی قسم کی کوئی بات با آسانی اثر انداز
نہیں ہو پاتی۔ ۔ ۔ایسے اب ہنسیے نہیں چلیں خیر ہنسیں اور ہنسائیں غم ہر کوئی دیتا
ہے خوشی کا باعث کوئی کوئی بنتا ہے۔ ۔ ۔اپنا خیال رکھیے اگلے مضمون کا انتظار نہیں
کرنا کے آپ انتظار کرنے بیٹھ جائیں اور مجھے لکھنا پڑ جائے بنا موڈ کے موڈ ہوگا
تبھی تو لکھوں گی نا ایسے تھوڑی نا فَٹا فَٹ اگلا مضمون لکھ دوں۔ ۔ ۔مضمون لکھنے
سے یاد آیا کیا دن ہوتے تھے جب رَٹے رٹائے مضامین پرچہ جات کے لیے ہم رَٹتے تھے
خیر یہ رواج آج بھی پہلے دن کی دلہن کے جیسا تازہ ہے اور رہیگا کیونکہ مضمون اگر
نئے عنوان کے ساتھ چھاپنے پڑے تو اساتذہ کی بڑی تعداد کی روٹی روزی خطرے میں پڑ
جائے گی آخر وہ بھی ہمارے والے مضامین پہلے پڑھ چکے ہیں جو انہیں انگلیوں پر یاد
ہیں نئے مضامین پہلے انہیں خود یاد کرنے پڑیں گے۔ ۔ ۔ویسے نمبر تو وہ ایسے دیتے
ہیں کے خود انگریز بھی ان کے سامنے چھوٹی چھوٹی پانی کی بالٹیاں بھرتے دکھائی دیتے
ہوں جیسے۔ ۔ ۔چلیں جی چھوڑیں اب مزید نہیں لکھا جا رہا جان چھوڑیں کہیں اور اب
دھیان بٹائیں اپنا بلکہ جن مسلئوں کو آپ بھلائے بیٹھے ہیں انہیں ایک بار پھر سے
یاد کیجیے اور اپنی اصلی حالت میں آجائیں۔
۔ ۔بائے بائے ٹاٹا۔ ۔اللہ حافظ۔ ۔ ۔اپنا خیال رکھیے گا۔ ۔ ۔او ہاں یاد آیا مضمون
کیسا لگا یہ ضرور بتا دیجیے گا میم جی، طلبہ و طالبات یا ماسٹر جی جو بھی ہیں آپ
ٹھیک ہے یاد سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
Comments
Post a Comment