ابا کی محبوبہڈاکٹر بابر جاوید۔
مانگنے پر بھی ابا مجھے سائیکل نہیں دیتے تھے ابا کو سائیکل بہت پیاری تھی پریم سے ہر جمعہ اسکی سروس کرتے ساتھ ساتھ پرانے گانے چلتے
بابو جی دھیرے چلنا
پیار میں ذرا سنبھلنا
بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں
ہاں ذرا سنبھلنا
سائیکل نہ ہوئی محبوبہ ہو گئی اتنی محبت حد ہے بھئی
میں کیا کرتا مجھے ابا کی سائیکل بہت بھاتی، موقع ملتا تو لے اڑتا۔ برے طریقے سے چلاتا
اکثر گرا دیتا چین اتر جاتی ہینڈل مڑ جاتا میرے گھٹنے چھل جاتے
اماں سے ڈانٹ الگ پڑتی
ایک دن ابا نے سائیکل عزیز چچا کو دے دی یہ میرے لیئے بہت بڑا صدمہ تھا پیارے ابا کی کج ادائی مجھے ہرگز نہ بھائی. جانتے تھے مجھے سائیکل چلانے کا کتنا شوق ہے میری بجائے سائیکل عزیز چچا کو دے دی میں ابا سے بہت ناراض تھا
پتہ ہی نہ چلا بچپن کے ہاتھ سے میرا ہاتھ کب چھوٹا میں بڑا ہو گیا ناراضگی بھی بڑی ہو گئی FSC پاس کی میڈیکل میں داخلہ ہوا تو پڑھائی میں مصروف ہو گیا بچپن کی یادیں سنوار کر تہہ لگا کر سنبھال رکھی تھیں لوری کی دھنوں کی طرح بجتیں ایک اداس دھن سب سے علیحدہ بجتی۔ سائیکل کی گھنٹی اور ابا کے پرانے گانے میری اداسی کا سبب بن جاتے سائیکل کا دکھ دل سے جاتا ہی نہیں تھا یادوں کی تپتی دھوپ میں ننگے پاؤں دوڑتا پھرتا عجب دکھ تھا کملا جھلا۔ شاید بچپن کے دکھ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں پھٹی جیب سے آخری دوانی گرنے جیسے
ابا بوڑھے ہو گئے بیمار رہنے لگے میں ڈاکٹر بن گیا ابا میرے نتیجے کا انتظار کر رہے تھے دو دن بعد چلے گئے
عزیز چچا افسوس کرنے آئے دیر تک میرا ہاتھ تھام کر بیٹھے ابا کی باتیں کرتے رہے ابا کا ذکر ہو اور انکی محبوبہ کا ذکر نہ چھڑے کیسے ہو سکتا ہے سب سائیکل کو ابا کی محبوبہ کہا کرتے تھے یار تیری فیس بھرنے کے لیۓ انہوں نے سائیکل بیچ ڈالی میں نے بہت کہا ادھار لے لیں پر ایک نہ مانی تو جانتا ہے نا اصول کے کتنے پکے تھے
میں نے کہا محبوبہ کے بغیر جی پائیں گے
کہنے لگے میرے پتر پر ایسی ہزار محبوبائیں قربان
میں اور کچھ نہ سن سکا دل میں پڑی ناراضگی سسکنے لگی
بابو جی دھیرے چلنا پیار میں ذرا سنبھلنا
بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں
یہ کیسا دھوکا تھا پیار میں۔
اللّٰہ تعالیٰ سب کے والدین کا سایہ ہمیشہ قائم رکھے ۔
Comments
Post a Comment