Zindgi bemehni rahi by Usman Shoukat

" زندگی بے معنی رہی"


میرے پیارے اللہ!
"آپ کے نام یہ میرا پہلا اور آخری خط ہے ، بچپن میں ایک بار ایک کہانی پڑھی تھی۔۔۔۔ایک یتیم بچے کی کہانی، جسے اپنی کوئی ضرورت تھی اور وہ آپ کے نام خط لکھتا تھا،اور اس کی ضروریات پوری ہوتی تھی۔شاید کسی انسان نے ہی خط دیکھا ہوگا اور اس ضرورت ترس کھا کر پوری کی ہوگی۔
تب وہ کہانی پڑھتے ہوئے مجھے ترس نہیں آیا رشک آیا تھا اس بچے پر اس میں اتنی طاقت تو تھی کہ خط لکھ سکتا تھا مجھ میں تو وہ بھی نہیں۔یہی سوچ کر میں بھی ایک خط آپ کے نام لکھنا چاہتا ہوں کسی کے ہاتھ لگ جائے اور کوئی ترس کھا لے مگر اب تو اس کی امید بھی نہیں۔
کاغذ پر سیاہی سے لکھی گئی تحریریں تو پڑھی جا سکتی ہیں مگر سوچ کی لہروں پر لکھی تحریر لوگوں تک نہیں پہنچ سکتی اور تو صرف لکھنے والا اور اللہ ہی جانتا ہے؟
میں بھی چاہتا تھا ایک خط اللہ کے نام لکھ کر پوسٹ کروں لیکن میں اس قابل بھی نہیں۔
لکھنے کے لیے ہاتھ اور قلم ہونا ضروری ہے اور میں دونوں چیزیں تھامنے سے قاصر ہوں۔میں اگر قلم پکڑوں گا تو مری انگلیوں سے لگا گوشت الگ ہو جائے گا اور جسم کو ہلانے کی کوشش کروں تو جسم سے پیپ رسنے لگے گی۔۔ آنکھیں مسلسل کھلی رکھنا بھی مشکل ہے درد کم کرنے کی دوائیں مجھے ہوش میں رہنے نہیں دیتی۔میں بول کر کسی دوسرے سے بھی لکھوا لیتا مگر الفاظ اکھٹے کرنے تک شاید میں زندہ نہ رہوں۔
درد سے میرا ذہن ماوف ہو چکا ہے درد کی شدت اتنی ہے کہ میں کراہ بھی نہیں سکتا۔
فوجی ہوسپٹل کے برن یونٹ کے ایک بستر پر میں زندگی کی آخری سانسیں جی رہا ہوں۔
ہاں شاید میں مرنے والا ہوں میں نے خود ڈاکٹر کو کہتے سنا ہے۔
"یہ کچھ دیر میں مر جائیں گے"
وہ کس سے کہہ رہے تھے میں نہیں جانتا۔
ممی ،بابا تھے عاشی تھی یا زریاب ہاں میری محبت زریاب آہ
مجھے معلوم تو نہیں کس سے کہا مگر میں نے اپنے کانو سے سنا پتہ نہیں انھیں کان کہا بھی جا سکتا ہے یہ نہیں
جلی ہوئی چیزیں یا راکھ ہوتی ہیں یا کوئلہ؟
میری ناک میں لگی نالی مجھے چند سانسیں اور جینے میں مدد کر رہی ہے۔میرے ہاتھ کی پشت شاید پشت نہیں آبلہ بنی ہوئ پشت میں لگی ڈرپ میرے درد کو کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ میں گردن سے پاوں تک ایک سلاخ دار پنجرے میں ہوں جسے ایک سفید چادر سے ڈھانپا گیا ہے تاکہ میرے جسم سے چیز نہ لگے
میرے جسم پر موجود گوشت،چربی کھال سب کچھ جل کر صرف خون آلودہ اور پیپ زدہ بن چکا ہے۔
میں اپنا چہرہ بھی نہیں چھو سکتا میں جانتا ہوں وہاں اب کچھ بھی نہیں۔
راکھ بن چکا ہوں ۔
ہاں آنکھیں باقی ہیں جو مجھے دکھا سکتی ہیں لوگوں کی آنکھوں میں آنے والا خوف میں ہر ایک کی آنکھ میں خوف دیکھ رہا ہوں
صرف چوبیس گھنٹے   میں میں جھلسا ہوا ایک ڈھیر بن گیا
چوبیس گھنٹے پہلے تک تو میں ٹھیک تھا ایک نارمل انسان
نارمل انسان کہنا ٹھیک نہیں
میں انسان تھا ہی کب
پچھلے چوبیس گھٹنوں سے میں اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈ رہا ہوں۔
میں آپ کو بتا نے کے لئے نہیں لکھ رہا یہ خط میں تو آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں 
کیا پوچھنا چاہتا ہوں🤔
آہ مجھے یاد نہیں آ رہا ہے؟
درد بڑھتا ہی جا رہا ہے۔نرس میری ناک میں لگی ہوئی نالی کو ٹھیک کر رہی ہے۔
  اس نے آکسیجن میں پریشر تبدیل کر رہی ہے۔ میرے چہرے کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں رحم ہے ترس ہے خوف ہے میں نہیں جانتا۔
میرے اردگرد کھڑے لوگ میری سانسیں گن رہے ہیں وہ چاہتے ہیں میں مر جاوں اس اذیت سے اچھا ہے میں مر ہی جاوں میں بھی یہی چاہتا ہوں 
مگر وہ سوال آہ ہ ہ
مجھے ابھی بھی یاد نہیں آرہا
میں یاد کرنے کی کوشش کررہا ہوں
میرے پاس کوئی رو رہا ہے
میں کروڑں کی دنیا میں بھی یہ آواز پہچان سکتا ہوں میری ماں کی آواز
 نو ماہ اس عورت نے میرے جسم کو تخلیق کیا۔ایک ہنستے کھیلتے   شہریارآفریدی کو 
پچیس سال بعد وہ آج مجھے دیکھ کر کیا سوچ رہی ہو گی۔  اس کا خریدا ہو کوئی لباس مجھے خوبصورت نہیں بنا سکتا 
اب میری شناخت صرف ایک جھلسا ہوا جسم ہے اور کچھ بھی نہیں۔
     میں سوچ رہا ہوں آپ مجھے دیک ھکر کیا سوچ رہے ہوں گے تخلیق تو آپ نے ہی کیا ہے کتنی صدیاں اپنے پاس رکھا اور میرے چہرے کو آپ ہی نے تو بنایا ہے جسے انسانوں نے مسخ کر دیا،
کب 
کب 
کب
میرا باپ میں آدھ کھلی آنکھ سے اسے دیکھ سکتی ہوں وہ کل سے ڈاکٹر کے بتاے نسخے لا رہا ہے مگر اس کے لائے گئے نسخے،انجکشن کچھ بھی میرا جسم میری خوبصورتی چہرہ مجھے واپس نہیں کر سکتا۔
اخبار میں پڑھی سرخی کو دیکھ کر وہ بھاگا تھا
کیا گزرتی ہو گی جب آپ اخبار کی سرخیوں میں کسی کے جلنے کی خبر سنیں
اور اس سے آپ کا خونی رشتہ بھی ہو؟
"پاپا بھائی بچ جائیں گے نہ" عاشی میری لاڈلی بہن اب کوئی اسے تنگ نہیں کرے گا اس کی پونی نہیں کھینچے گا اس کی شکایت نہیں کرے کیوں کہ اس کا وہ بھائی اب نہیں رہے گا
شاید وہ میرا سامنے کرنے کی ہمت نہیں رکھتی اس لیئے بابا سے پوچھ رہی ہے مجھے ابھی تک دیکھا بھی نہیں
شاید اتنی ہمت نہیں   
زریاب آہ میری محبت بہت مان سے دلہن بنا کر لایا تھا اسے دنیا کی ہر خوشی اس کے قدموں میں لانے کا وعدہ
زندگی بھر ساتھ دینے کا وعدہ
وہ اکثر کہتی تھی دعا کرنا جب بھی موت آئے پہلے میں مر جاوں تمہیں مرتا نہیں دیکھ سکتی 
اس کی دعا قبول نہیں ہوئی
کیسی حالت ہو گی اس کی
حالت سے  یاد آیا
وہ تو ماں بنے والی تھی ساتواں مہینہ چل رہا تھا آنے والے مہمان کے لیے کیا کچھ پلین نہیں کیا تھا 
آہ
درد بڑھ رہا ہے سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہے۔
میں نے اکیس سال اپنے خاندان کے ساتھ گزارے بائیس سال کی عمر میں شادی ہوئی  تین سال بعد آج جب مجھے خوشیاں ملنے والی تھی موت کا فرشتہ پہنچ گیا۔
   میں کبھی خود کے لیے نہیں رویا وقت ہی نہیں ملا 
بیس سال کا تھا جب میرا خواب پاک آرمی میں جانے خواب پورا ہوا۔
میں ملک کے لیے کچھ کر دکھانا چاہتا تھا۔
To die for my country
اوہ میرے اللہ میری تکلیف۔۔۔
مجھے ابھی تک میرا سوال یاد نہیں آیا۔
زریاب نے ایک دن کہا تھا جب وہ ماں بن جائے گی بیٹا ہوا یا بیٹی میں سب سے پہلے اس کی آنکھوں کے سامنے آوں
تا کہ جب ا
نے والے مہمان کی آمد ہو تو بچہ اپنے باپ کو دیکھیں
وہ چاہتی تھی وہ بلکل میرے جیسا ہو
آہ
میں نے نام بھی سوچا تھا 
احمد شہریار آفریدی اور اگر بیٹی ہوئی تو   عمیرہ شہریار آفریدی

کتنا خوشگوار احساس ہوتا ہے نہ اپنے بچوں کے نام سوچنا ان سے کھیلنے کی چاہت رکھنا۔۔۔۔۔

میرا باپ اب بھی میرے پاس ہی کھڑا ہے کتنے مان سے اس نے مجھے آرمی میں بھیجا تھا۔چہرے کی جھریاں،ماتھے کے بل 😥

ہاں میں یہاں آیا کیسے میں تو اپنی چوکی میں تھا۔ ہاں یاد آیا میں زریاب سے بات کر رہا تھا۔ جب اچانک بارڈر پر فائرنگ شروع ہوئی۔
میں نے کال ڈس کنکٹ کی پھر اچانک ایک بم ہماری چوکی کے پاس گرا میرے ساتھ چھ اور فوجی تھے۔ سب مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے۔
مجھ پر ایک جنون سوار ہو گیا اور میں بم پر کود گیا میں نے سوچا تھا اسی وقت شہادت نصیب ہو گی مگر نہیں ابھی کچھ سانسیں کچھ سوچیں کچھ درد اذیت باقی تھی۔ میں یہاں کیسے آیا اس کے بعد کیا ہوا میرے ساتھی زندہ ہیں یا نہیں مجھے کچھ پتا نہیں
آج میں مرنے والا ہوں مجھے شہادت کا شوق تھا میں اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا۔

مرا ذہن ماوف ہو رہا ہے
آنکھیں آنکھیں نہیں کھل رہی

اوہ
سانس میری سانس روک رہی ہے
سب کچھ ختم ہو رہا ہے سب کچھ
کیا یہ موت ہے
میرا خاندان
میری زریاب
میرا مہمان
سب کچھ
کیا زندگی اتنی ہی تھی
ہاں
سوال میرا سوال ہیں ہے
یاد آ رہا ہے 
میں پوچھنا چاہتا تھا کیا میری یہ شہادت قبول ہوگی
میں نے اس ملک کے لیے جان دے دی جہاں منافق رہتے ہیں
جہاں زنا کیا جاتا ہے اسلام کے نام پر دہشت گردی کی جاتی ہے
وہ ملک جو اسلا م کے نا
م پر بنا لیکن اسلام پر چل نہیں رہا
 
آپ تو میرے سوال کا جواب دیں
مجھے لگتا ہے میری شہادت رائے گاہ گئی
میں نے یہ دوزخ ویسے ہی دیکھی اتنی اذیت 
اتنا درد اس کا کوئی مقصد نہیں
بلکل اس کا کوئی مقصد نہیں
ایسے ملک کے لوگ کبھی نہیں سدھریں گے
میرا خاندان تھا
میرا گھر تھا
اور وہ مہمان کیا سوچے گا اس کے بابا کہاں گے جو اس کے پیدا ہونے کا بھی انتظار نہیں کر سکے۔

یہ لوگ تو میری ودری پر میڈل لگا دیں گے سلامی پیش کر دیں گے
مگر میرے والدین
جان سے پیاری بہن
اور میری محبت زریاب
کیا کریں گے
ان کے دکھ کا کوئی مداوا ہے کیا؟
اس دوزخ کے بعد بھی آپ مجھے دوزخ دیں گے

میں۔۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔سانس روک رہا ہے
جسم بے جان ہو رہا ہے
گھٹن
اندھیرا
"یہاں کسی کو بھی حسبِ آرزو نہ ملا_
"کسی کو ہم نہ ملے اور ہمیں تو نہ ملا_
زندہ قومیں اپنے شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کو بھلاتی نہیں ۔۔۔مگر ان کے پاد ان قربانیوں کے لیے عزت نہیں
¤۔۔۔۔۔۔۔¤۔۔۔۔۔۔۔¤۔۔۔۔¤۔۔۔۔۔۔۔¤
بہت وقت لگا ہے لکھنے میں
طالب دعا نا چیز 
عثمان شوکت

Comments