سرخی پاؤڈر
جب 2010 میں فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا تب جو چیز سب سے زیادہ شئیر کی جاتی تھی وہ یوٹیوب سے گانے ہوتے تھے پھر اسلامی اخلاقی سیاسی موٹیویشنل تحریروں کا سلسلہ شروع ہوا پھر مرد حضرات مختلف پروگراموں پارٹیوں یا اپنے سفر کی تصاویر شئیر کرنے لگے۔
خواتین نے بھی ان دنوں اپنے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر گھر والوں سے چوری چھپے نام بدل کر فیس بک اکاؤنٹ بنانے شروع کیے۔ تصویر کی جگہ باربی ڈول یا کسی فلمی ہیروئن یا نیٹ سے کسی بھی انجان لڑکی کی فوٹو اٹھا کر لگا دی جاتی تھی۔ پھر نام بدل کر اپنے کئے گئے تصاویر میں اپنے پاؤں ہاتھ یا اپنے چہرے سمیت گاٹا کاٹ کر نیچے کا دھڑ لگایا جانے لگا۔
پھر ورکنگ ویمنز نے دفتر سکول میں کسی افسر یا سیاسی شخصیت کی آمد پر بنائی گئی تصاویر کو اپنے منہ پر یا جو لڑکیاں اپنی تصاویر شئیر نہیں کرنا چاہتی تھیں دل، پھول، ایموجی وغیرہ سے چھپا کر شئیر کرنا شروع کیا۔ سمجھا یہ جاتا تھا کہ ایڈوب فوٹو شاپ سے انکا چہرہ کسی قابل اعتراض فوٹو سے جوڑ دیا جائے گا اور اور پھر وہ فوٹو غلط استعمال ہوگی۔. یا دوسرا بیانیہ یہ تھا کہ نیٹ پر ڈال دی جائیں گی جو کسی مسئلے کا باعث بن سکتی ہیں۔
پھر چند سال گزرے وٹس ایپ آیا وٹس ایپ ڈی پی پر کچھ خواتین نے اپنی تصاویر لگائیں کہ نمبر بس فیملی ممبر یا پہچان کے لوگوں کے پاس ہی ہے ناں پھر انسٹا گرام آیا وٹس ایپ میں سٹیٹس کا آپشن 2019 میں ڈالا گیا تو موبائلز میں کیمرے بھی اچھے ہوتے گئے۔ دس سال قبل خواتین کا اپنی تصاویر شئیر کرنے کا ٹرینڈ تھا وہ 2020 کے آغاز سے ہی یکسر بدل گیا۔
اب اپنے پاؤں ہاتھ یا دھڑ کی فوٹو لگانے والی 2010 کی لڑکیاں (جو اب خواتین ہیں) اکثریت خوب سرخی پاؤڈر لگا کر اپنی سینکڑوں تصاویر و سیلفیاں انسٹا گرام پر دھڑا دھڑ لگا رہی ہیں یہی حال وٹس ایپ سٹیٹس کا ہے۔ خواتین کے موبائل میں جو چیز سب سے زیادہ جگہ گھیرے ہوئے ہوتی ہے وہ عموماً انکی دو دو درجن فلٹر لگی تصاویر یا ٹک ٹاکس ہیں۔ اسے ہم روک نہیں سکتے نا اس پر کوئی فتویٰ لگانے سے یہ کام رک جائے گا۔ پچھلی دہائی کو دیکھتے ہوئے میرا گمان ہے ہر لڑکی جو آج مکمل پردے میں ہے اگلے دس سال تک اپنی پردے کی ڈیفی نیشن کو بدل چکی ہوگی اور اپنی تصاویر شئیر کرنا معیوب نہیں سمجھے گی نا اسکے بھائی ابو یا خاوند کو اس پر کوئی اعتراض ہوگا۔
پہلے نقاب عام تھا وہ گیا پھر عبایہ کا فیشن تھا وہ بھی گیا بڑی چادر آئی (عموماً سفید یا براؤن سی ہوتی تھی) وہ بھی گئی پھر لان کاٹن کے سوٹ کے ساتھ والی مناسب سی چادر آئی اسکی جگہ بھی اب جالی کا دوپٹہ لے رہا ہے۔ مجھے اس ساری تبدیلی پر بلکل کوئی اعتراض نہیں ہے ہر چیز ارتقاء کے عمل سے گزرتی ہے وقت کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ پردے کی ڈیفی نیشن دنیا کے گلوبل ویلج بننے کے ساتھ بدل رہی ہے۔ بہت سی لڑکیاں ارتغل ڈرامہ کے بعد چہرے کا نقاب کرنا چھوڑ رہی ہیں کہ خلافت عثمانیہ کی خواتین کے پردے میں اگر نقاب نہیں تھا تو چہرے کی کچھ رعایت ہے۔
مرد و زن کے تعلقات و رابطوں میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں اب لوگ اپنے موبائل میں اپنی خاتون دوست یا کسی بھی خاتون یا بہن بیٹی بیوی کا نمبر اسکے اصلی نام سے ہی لکھنا شروع ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ہماری بیٹی بہن یا بیوی کے موبائل میں اسکے کسی کولیگ، یا دوست کا نمبر محفوظ ہونا اب قابل اعتراض نہیں رہا۔ جیسا موبائل آنے کے اوائل میں تھا۔
اب لوگ اپنی فیملی یا دوستوں میں بھی لڑکے یا لڑکی کے تعلق کو بھائی بہن کی بجائے اسکا دوست یا اسکی دوست سے بدل رہے ہیں اور اسے برا نہیں سمجھا جا رہا۔ مگر اس ساری تبدیلی کے بعد ہماری خواتین گھر سے باہر مردوں کی حوس بھری نظروں بلکہ سی ٹی سکین یا ایم آر آئی سے بھی کسی حد تک محفوظ ہوئی ہیں؟ کیا ہم مردوں کا وہ مخصوص سوچ کے ساتھ لڑکیوں کو تاڑنے والا گندے کمنٹس کرنے والا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوا ہے؟
لڑکی چاہے سر تا پا نقاب میں ہو یا ٹی شرٹ و جینز پہنے بنا دوپٹے کے وہ آج بھی مردوں کی نظری ہراسانی اور جہاں ممکن ہو تعلیمی یا دیگر سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں جنسی ہراسانی سے بلکل محفوظ نہیں ہیں۔ ہر چیز پر تغیرات آئے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں لڑکی گھر سے باہر کسی بھی جگہ نہ پہلے محفوظ تھی نہ اب ہے۔ اور اکثر تاڑنے والے کمنٹس کرنے والے ہی خواتین کے پردے کی اہمیت کو قرآن و حدیث سے ثابت کررہے ہوتے۔ اور انکے اپنے لیے قرآن کیا کہتا ہے وہ ان سے پوچھ لو تو اس بات کو چھوڑ پر آپ پر ذاتی حملے شروع کر دیں گے۔ تینوں وی ویکھیا اے ایڈھا توں حاجی ثنا اللہ۔ اور آپکی کردار کشی شروع۔
میرے بھائیو دوستو چچو مامیوں اور دادا کی عمر کے بزرگو آپ سب سے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنی سوچ کا گند و تنگ نظری اب نکالیں ذہن سے۔ یہ معاشرہ ہمارا اپنا ہے اسے ہم کسی اور کی نقاب پوش یا بنا نقاب کے خواتین کے لیے محفوظ نہیں بنائیں گے۔ نہ ہم سو فیصد خواتین کو نقاب کروا سکتے ہیں نا یہ ہمارا کام ہے۔
اس سماج میں ہمارے ہی گھر کی خواتین بھی رہتی ہیں وہ بھی باہر جاتی ہیں آپ کو یہ بات کہنے یا بتانے کی ضرورت ہے؟؟ کہ آپ جس نظر سے کسی کو دیکھ رہے اسی نظر یا کسی بھی لیول لی ہراسانی کا سامنا جو آپ کسی کے ساتھ کرتے ہیں آپکی عزیزہ کو بھی کسی جگہ ہو سکتا ہے؟؟ اگر کوئی لڑکی یا خاتون بنا نقاب کے ہے تو آپکو کس نے لائسنس دے دیا آپ اسکو برا سمجھیں اسکے بارے میں غلط کمنٹس کریں؟ تو آئیے اپنی سوچ بدلنے کا عزم کرتے ہیں اور اپنے معاشرے کو کسی بھی لیول کی ہراسانی سے پاک کرنے کا خود سے وعدہ کرتے ہیں اور ہمارے آس پاس جو مرد ایسا کریں انکو روکیں نہ رکیں تو ایکسپوز بھی کریں گے۔
خطیب احمد
Comments
Post a Comment