سانحہ پشاور
از قلم:-✍️اریبہ افتخار
ہسپتال
میں قیامت تھی اپنوں کو کھونے کی ۔۔۔۔کسی باپ کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔۔کوئی ماں گود اجڑنے
کا ماتم کر رہی تھیں
صف
ماتم تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔خون کی لال وردیوں میں ننے وجودوں کو لایا جا رہا تھا ۔۔
ان
سب میں ایک وجود اپنے لخت جگر کی تلاش میں تھا
)آٹھ
جاؤ خاں لالہ چھوڑ جائے گا ۔۔
اف
امی کبھی چھوڑ جانے دیا کرو ۔۔۔روز جگا دیتی ہیں )
زخمیوں
کی وارڈ میں جاتے پاؤں سے جوتے اتر گئے
تھکے
قدموں سے وارڈ میں داخل ہوئی ۔۔۔سر سے دوپٹہ سرک کے شانوں پر آگیا اب وہ ہر اک کو بہت
غور سے دیکھ رہی تھی ہر بچے میں اس کو اپنا بچہ نظر آرہا تھا
پہلے
زخمی کے پاس گئ تو اس کا چہرہ لال خوں سے آلودہ تھا ۔۔۔۔اسے سے اگلے کے پاس گئی تو
۔۔ٹانگیں تن سے جدا تھی ۔۔ایک ایک بیڈ پہ دس دس بچوں کو ڈالا ہوا تھا ۔۔۔۔وہاں اس کا
جان جگر نہیں تھا
گرتے
قدموں کے ساتھ وہ ICUکی
جانب بڑی دوپٹہ پاؤں میں جھول رہا تھا
نہ
جانے کیوں دل نے یہ خواہش کی تھی ۔۔۔۔کہ میرا بیٹا یہاں ہی ہو چاہے سیرئیسس کنڈیشن
میں ہو۔۔۔ سانس تو لے گا نہ کیونکہ اس کے بعد مردہ خانہ تھا ۔۔۔۔۔
ستائیس
سال کا وجود کچھ گھنٹوں میں بڑھاپے میں ڈھل گیا تھا۔۔۔
وارڈ
کے باہر کھڑی وہ ہر ایک کو تاروں میں جکڑا دیکھ رہی تھی ۔۔۔لیکن وہ کہیں نہیں تھا
۔۔۔۔
خدا
جانتا تھا اس کے آنکھ سے ایک آنسو کیوں نہیں گر رہے تھے ۔۔ہاں صدمہ تھا شدت تھی ۔۔
دوپٹہ
کہیں گر گیا تھا بال کچھ کچھ سفیدی کے ساتھ شانوں پر پڑے الجھ ہوئے اور آنکھوں کے گرد
گہرے ہلکے ۔۔۔وہ زندہ لاش لگ رہی تھی اور اب وہ اپنی قبر کی طرف بڑھ رہی تھی چیخوں
کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی تو چونکی جاتی لیکن روتی نہیں ۔۔۔
مردہ
خانے کے دروازے پہ کھڑے سب کو دیکھ رہی تھی سب اپنی باڈی کو پہچان رہے تھے۔۔
سب
سے اذیت ناک مرحلوں میں ایک مرحلہ یہ بھی ہوتا ہر ایک مردہ سے کپڑا ہٹا کہ دیکھنا اور
ہر عمل پہ یہ دعا کرنا ۔۔یااللہ یہ نہ ہوں ۔۔۔۔
اور
اس کو اس ہی اذیت سے گزرنا تھا وہ ہر ایک کو کپڑا ہٹا کر چہرہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
اس
کا جان گوشہ کہیں نہیں تھا ۔۔۔پھر کہا تھا ۔۔؟
باہر
نکلتے ۔۔۔کسی سے ٹکرا کے نیچے گری تو ناک کی نتھوں کو کو کسی خوشبوں نے چھوا وہ کیسے
بھول سکتی تھی اس خوشبو کو
)امی
آج یہ پرفیوم لگا لوں ؟ نہیں یہ نہیں لگانی یہ آپ کے بابا کی تھی ۔
تو
پھر میں کیوں نہ لگاؤں ۔۔
کیونکہ
اس کو لگا کہ باہر جاؤں گے تو چڑلیں آنے نہیں دے گیں ۔۔۔
بابا
کو بھی نہیں دیا تھا ۔۔۔۔۔؟
کچھ
چھن سے ٹوٹا تھا اندر (
کچھ
دکھ بہت درد ناک ہوتے ہیں انسان سمجھ نہیں پاتا کہ کون سا دکھ بڑا ہے ۔۔۔یہاں بھی کچھ
ایسا ہی تھا وہ نہیں جانتی تھی کون سا دکھ بڑا اس خوشبوں کا یا اس خوشبوں کا اس جگہ
سے آنا جہاں سب کھلتے وجود اب ابدی نیند سو رہے تھے ۔۔
اس
نے فورا اوپر دیکھا جس سے ٹکرائی تھی ۔۔۔۔۔کوئی چھوٹا سا بچہ اٹھائے اندر آرہا تھا
جس کی بس ایک بازوں ہوا میں جھول رہی تھی اور وہ نیچے گری بس یہ ہی دعا کر رہی تھی
یا اللہ وہ نہ ہو ۔۔۔۔دل سے نکلتی ہی آواز آب زباں پر آگئی تھی اور وہ اونچا اونچا
کہہ رہی تھی یااللہ میرا شیر نہ ہو ۔۔۔۔یااللہ مرا راجا نہ ہو ۔۔۔۔اے اللہ میں ایک
شہید کی بیوہ بن کے ایک تو دے چکی دوسرا نہ لے ۔۔۔کسی کی عینک نیچے گری تھی ۔۔۔وہ اس
کی عینک تھی اس نے لرزتے ہاتھوں سے اٹھائی
)
امی آپ کی عینک کتنے دن سے ٹوٹ گئی ہے آپ کو تو نظر نہیں
آتا اس کے بغیر میں جوڑ دوں گا
ارے
واہ میرا شیر بیٹا بڑا ہو گیا ۔۔لیکن ابھی جلدی سے کھانا کھاؤں سکول جانا (
اب
کوئی شک نہیں تھا وہ اس کا ہی شیر تھا ۔۔۔وہ پھٹ گئ تھی جو آنسو اب تک نہیں گرے تھے
اب لڑیوں میں بہہ رہے تھے ۔۔۔۔یہ میرا بچہ ہے میرا چین میرے دل کا سکون اس کو مجھے
دے دوں ۔۔۔یہاں میری گود میں ۔۔۔۔لانے والے نے اس کی گود میں ڈال دیا تھا
اس
کو یاد تھا وہ دن جب اس کی گود میں پہلی بار ڈالا گیا تھا ۔جب اس کو صاحب اولاد ہونے
کی خبر سنائی گئی تھی ۔۔۔
)اس
کے ہونٹ تو سارے اپنے باپ پہ ہیں ۔۔دیکھوں تو نچلے ہونٹ کا کٹاؤ۔۔پہلی بار گود میں
ڈالے اپنی اولاد کے ہونٹ چومیں تھے (
اب
وہ اس ہی ہونٹ کو اپنے لبوں سے لگا رہی تھے جس کو ظالموں نے پاؤں سے کچل دیا تھا
۔۔
)اسکو
یاد تھا اس کے بابا نے جب پہلی بار ننے سے ہاتھ کو اپنے بڑی ہتھیلی میں لیا تھا(
اس
نے اپنے جگر گوشے کے ہاتھ جیسے تھامے تو اس کی چیخوں سے مردہ خانہ چلا اٹھاتھا
اس
کے ہاتھ کے نام پر بس ہتھیلی تھی انگلیاں کٹ چکی تھی کتنی اذیت دی ہو گی اس کو ۔۔۔
اب
بے تحاشہ با آواذ رو رہی تھی وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔بچہ تو بچہ ہوتا ہے ۔۔بچہ تو معصوم
ہوتا ۔۔۔۔مجھے کاٹ دیتے ۔۔۔مر ایک ایک حصہ الگ کر دیتے اتنی سی جان کو اتنی تکلیف نہ
دیتے ۔۔کیا کیا ہو گا میرے بچے نے ۔۔۔۔چیختا ہوگا ۔۔۔۔روتا ہوگا مجھے بلا رہا ہوگا
۔۔۔ہائے تم پہ قربان جانے والی ماں تمہیں بچا نہ سکی ۔۔۔۔۔ہائے یہ دیکھنے سے پہلے مجھے
بھی اندھا کر دیتے
سینے
میں ایک ناقابل برداشت درد اٹھی ۔۔وہ اس کے ایک ایک حصے کو چوم رہی تھی وہ اس کو اٹھنے
کا کہہ رہی تھی ۔۔سینے کی درد کو کم کرنے کے لئے خود سے لگاتی لیکن جو چلے جائے وہ
نہ اٹھائے جاتے ہیں نہ ۔۔۔واپس لائے جاتے ہیں اس نے آخری بار اس کی پیشانی چومی تھی
۔۔۔۔اور آواز سسکیوں کہ ساتھ ہلکی اور پھر ختم ہوگئی آنے والی لاشوں میں ایک اور کا
اضافہ ہوگیا تھا
مجھے______________ماتھے
پہ بوسہ دو
کہ
مجھے جگنو کے ،تتلیو ں کے دیس جانا ہے
نوٹ:یہ
واقعہ حقیقت پہ مبنی نہیں ہے مگر سانحہ پشاور میں ہونے والے درد کی عکاسی کرتا ہے
۔۔۔۔
****************
Heart touching😓😓
ReplyDeleteGood👍🏻
ReplyDelete