*✨🍂میں خوبصورتی پے نہیں لکھ
سکتی...!!!🥀🍁*
*ازقلم زويا عباسی✍🏻*
اک
عرصے سے بند پڑی قلم نے آج مجھے پکارا تو
میرا دل کیا میں کچھ لکھوں الفاظ کسی تیز رفتار ریل گاڑی کی مانند میرے ذہن کی
پٹڑیوں سے گذرتے رہے اچانک خيالوں کی ریل گاڑی خوبصورتی کے اسٹيشن پے جا رکی، میں
نے قلم اٹھا کے خوبصورتی پہ لکھنا چاہا...!ایک خوبصورت نقشہ میرے ذہن میں ابھر آیا
..؛ ہاں میں نے کشمیر پہ لکھنا چاہا...!
میری
سوچ کی سرزمین پہ کشمیر کی پہاڑیاں نمودار ہوئیں، میں نے انکی سربلندی کو سرہانا
چاہا تھوڑا آگے بہتے چشمے نظر آئے میں نے چشموں کے بہتے پانی کو چھونا چاہا، ذرا
دور چھن چھن کرتی چوڑیوں کی چھنکار سنائی دی تو میں نے اس مدھر آواز کے سنگ گن
گنانا چاہا..؛ جب ميں نے اڑتے پرندے دیکھے تو میں نے آزاد فضاٶں
میں اڑنا چاہا...!
خیالوں
کے بھنور سے نکل کے میں نے حقیقت کا قلم اٹھایا ؛تو اچانک سفید کاغذ پر ایک
گہرا کالا سایہ چھاگیا ، ہاں ہندوستان
کشمير کیہ خوبصورتی کو کھا گیا...! پہاڑوں کی جگہ مجھے شھید کشميری بھائیوں کے
حوصلے نظر آئے، چشموں کا شفاف پانی لہو میں بدل سا گيا سارا کشمير خون کے رنگ میں
رنگ گیا، مجھے خون کی ہولی کھیلتی قابض بھارتی فوج کشميریوں پہ تشدد کرتی نظر آئی
میں نے فوراً اراده ترک کر کے چوڑیوں کیہ چھن چھن کو سننا چاہا مگر اب وہ ساری
چوڑياں ٹوٹ چکی تھیں ایک درد بھری آواز میرے کانوں میں پڑ چکی تھی، کشميری بہنوں
کی عصمتیں لٹ چکیں تھیں انکی سسکیاں بھی اب تو تب چکی تھیں ...؛میں نے اس سناٹے کی
کہڑکی کھول کر آزاد فضائوں کو دیکھا تو مجھے زندانوں میں قيد کشمير نظر آیا..؛
زنجیروں ميں جکڑے کشميریوں کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ اگر کشمير خوبصورت ہے تو میں
خوبصورتی پے نہیں لکھ سکتی...!!!
*****************
Comments
Post a Comment