حکمتیں
از قلم :عائشہ صدیقہ
اللہ
نے ہر انسان کو مالی حیثیت کے حساب سے الگ الگ دیا-دنیا میں مالی لحاظ سے اکثر دو
طرح کی تقسیم کی جاتی ہے، امیر اور غریب لیکن حقیقت میں تین طرح کے لوگ ہیں امیر،
غریب اور سفید پوش لوگ-
امیر
لوگ وہ جنہیں اللہ رب العزت نے مالی لحاظ سے بہت کچھ دیا-غریب وہ جو مالی لحاظ سے
نچلے طبقے کے لوگ جانے جاتے ہیں-
سفید
پوش لوگ، ایسے لوگ جو کسی کے آگے سوال نہیں کرتے-جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے میں
عار محسوس کرتے ہیں-ایسے لوگ جو کھاتے پیتے بھی اچھا ہیں لیکن ہر وقت اپنی گھر کی
ضروریات اور بچوں کے مستقبل کے متعلق جوڑ توڑ میں لگے رہتے-ایسے لوگ اگر روکھی
سوکھی بھی کھا رہے ہو تو دنیا کو ظاہر نہیں ہونے دیتے-اللہ ایسے لوگوں کو صدقات
دینے کی زیادہ تلقین کرتا ہے-
قربانی
کے موقع پر ایک لمحے کےلئے سوچ کر دیکھیں کہ اگر دنیا میں غریب یا سفید پوش لوگ نا
ہوتے تو آخر گوشت کن لوگوں میں تقسیم ہوتا؟؟
ہم
کن کو سب گوشت اور صدقات دے کر اجر کے حقدار ٹھہرتے؟ اسی لیے ایسے لوگوں کا شکر
گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے صدقات قبول کرکے ہمیں اجر کے قابل بنایا-ایک لحاظ سے
اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ اس نے دینے والوں میں سے رکھا اور لینے والوں
سے نہیں رکھا_اس حالت میں جا کر دیکھیں ان لوگوں کا دکھ، درد محسوس کریں جو قرنابی
نہیں کرپاتے اور لوگوں کے گھر جاکر گوشت اکٹھا کرتے، جو دو وقت کی روٹی بھی مشکل
سے پوری کرتے-
غریب
اور سفید پوش لوگوں کےلئے جو اجر ہے وہ اللہ نے قرآن میں بتایا ہےکہ وہ امیر لوگوں
سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے_
ہم.
ہمیشہ ایک مثالی معاشرے کے قیام کے بارے میں سوچتے اور اللہ سے شکوہ کرتے کہ سب
لوگوں کو ان کی مرضی کے مطابق کیوں نہیں دیا گیا؟لیکن ایک لمحے کےلئے سوچیں کہ اگر
معاشرے میں سب کو اسکی مرضی اور خواہش کے مطابق دے دیا جائے جہاں کوئی مصیبت اور
مشکلات نہ ہوں، جہاں سب امیر ہوں تو ہم جنت کے حقدار کیسے ٹھہریں؟؟ ہمارے اعمال تو
ہمیں جنت سے لے جانے سے رہے-کیسے ہم آزمائشوں سے گزرے بغیر ہی جنت میں جائیں گیں؟؟
اگر
سب کچھ ہماری مرضی کا مل جائے اس صورت میں تو ہم اللہ کو بالکل ہی بھول جائیں
گے-دکھ کے وقت انسان جتنی شدت سے دعائیں مانگتا ہے - اپنی بےبسی کو محسوس کرتا ہے
وہ سکھ کی حالت میں کبھی نہیں کرسکتا-
ایک
مسلمان اور امتِ محمدی کے فرد ہونے کے ناطے اس وقت سے ڈرنا چاہیے کہ جب کوئی صدقہ
قبول کرنے والا نہ ہوگا، مال کی فراوانی ہوگی-لوگ خوشحال ہوں گے_
اعلیٰ
ترین درجہ اس صورت میں ہم کیسے حاصل کر پائیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس انسانوں کی
عقل بہت ہی کم ہے - ہمارا دماغ ابھی اس حد تک نہیں سوچ سکتا کہ ہم اللہ کی ہر حکمت
کو سمجھ پائیں-ہم صرف اتنا ہی سمجھ اور جان پاتے جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم
سمجھیں_
لیکن
اگر کائنات پر غوروفکر کرنا شروع کریں تو شاید ہم کسی حد تک اس پاک ذات کی حکمتوں
کو سمجھ کر اس کا شکر ادا کر سکیں-اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو آمین_
******************
Comments
Post a Comment