کورونا اور ہمارے اعمال
تحریر ـ خوشبخت حامد
آج
کل کورونا وائرس کی وبا جس کی علامت کھانسی و بخار
کےساتھ پوری دنیا پرچھائ ہوئ ہے۔جس
کو عام حالات میں ذیادہ اہمیت نہیں دے جاتی لیکن
آج ہرطرف خوف وافراتفری ہے۔ دنیا کا نظام
مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔مساجد و سکولز
سمیت ہرقسم کا کاروباری نظام بند پڑا ہے ۔جو کے معاشی لحاظ سے بربادي
کا سبب بن گیا ہے جس کی وجہ سے ہر بندہ
ذہنی تناؤ کا شکار ہے ۔
حکومت کی طرف سے بھی بار بار یہ ترغيب دی جاتی ہے کے گھروں میںں مقیم رہیں کیونکہ گھروں سے نکالنا بھی خطرے سے کم نہیں ۔
لیکن
ان سخت حالات کے باوجود برائیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آج بھی ظلم ، زیادتی، زناوبدفعلی ، رشوت ،چوری ، غنڈہ گردی
اور قتل وغارت کے بازار آج بھی اپنے عروج پر ہیں ۔اس وقت میی کۂ کوئ کسی کے قریب نہیں
جاسکتا۔مرنے والے کا مرتا ہوا چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ اسے بھیانک اموات کے ذکر
کے ساتھ کچھ سنگ دل، سفاک اور بےحس و بےضمیر لوگوں نے بھی اخبار کے سیاہی سے اپنا نام
روشن کر دیا ہے۔جہاں کورونا کے خوف سے زندگی سے سکون ختم ہو گیا وہاں ان لوگوں نے اپنے
کردار کی پس ظرفی کاخوب مظاھرہ کیا ہے۔ہم لوگ تو پہلے بھی گناہوں کے دلدل میں پھنسے
تھےلیکن کورونا کی مرہون منت
سے جہاں پوری فضا میں الله اکبر کی صدا ہر
چھت سے بلند ہوئ وہاں ان لوگوں کے دلوں
پہ خوب مہر لگ گیا۔
کوروناکا
ڈرتو ہےلیکن اس سے پہلے جو حالات تھےکہ ہر دوسرے دن بچوں کی گمشدگی پھر لاش اور جنسی تشدد کی خبريں سننے کوملتی تھی وہاں کورونا
کے آنے سےاس ظلم کی انتها کے احتتام کی کرن ضرور پیدا ہوئ تھی لیکن افسوس ماہمنور کی
موت نے ہمیں اس خوش فہمی سےنکال دیا ۔ماہم نور جیسی بچیاں جیس کے حسن کے آگے پھول بھی
شرماجاتے ہیں ان کی معصومیت کے فرشتے بھی گواہ
تھے۔مگر اس معاشرے کے درندوں نے انکی مسکراہٹوں
کو ان کے ماں باپ کے آنسو اور ناختم ہونے والے
درد میں بدل دیا ۔تو کیا اس وقت کورونا یا اسکا ڈر نہ تھا ؟
اس
کے بعد یہ افسوس ناک خبريں ہمیں پےدرپے سننے
کو ملی۔ایک ایسے بد نصيب ماں باپ جس کے دوہی
لخت جگر تھے جس کو مسجد کے امام نے اپنے بیٹے کے ساتھ ملکر ان دونوں کو پندرہ گز کنویں میں پھینک دیا۔جس کو سن کر روح کانپ اٹھی۔اس
کو معلم ، موذن اور استاد کا درجہ دے کر اس مقام کی توہین ہے۔اس مقام کی پاسداری نہ
کر اس نے عالم دین کی نگاهيں شرم سے جھکا دیں
کیونکہ استاد تو روشنی دکھاتا ہے اندھیروں
میں پھینکنے والا نہیں ہوتا ۔وہ صبروبرداشت کی تلقين کرتا ہے ایک بے بنیاد انتقام کے
آگ میں جلکر دوسروں کو نہیں جلاتا۔
پڑوسی
اور استاد کے علاوہ ہمیں اپنوں نے بھی برباد کر دیا۔جہاں خون سفید ہوجاتا ہے۔ احساس
کے جذبےختم ہوجاتے ہیں وہاں اس قسم کی خبریں سننے کو ملتی ہیں ۔باپ نےگھریلو جھگڑوں
کے باعث بیٹے اسکے سالےاور دوست کو موت کےگھاٹ اتار دیا ۔تو کیا اس ظلم سے گھر میں
سکون کی فضا قائم ہوگئی ؟باپ تو سراپا شفقت ہوتا ہے۔آگرماں کی ممتا کا کوئ مقابلہ نہیں
توباپ کی محبت کا کوئ نعمالبدل نہیں ۔لوگ تو سورج کی تپش سے بچنے کےلیےباپ کے شجرسايدار
کی ٹھنڈگ بھري چھاؤں میں چھبتےہیں۔بچوں کےليےباپ وہ سائبان ہے جس میں نہ کوئ غم نہ
کوئ فکر ہوتا ہے ۔مگر افسوس اس سائبان میں بھی کچھ بد نصيب لوگوں کی زندگی محفوظ نہیں
اور کچھ بدبخت خود اپنے سر سے اپنا سائبان چھین لیتے ہیں ۔
آگر
بچے باپ اور باپ بچے کی بہاروں کو لوٹ لیں
تووہاں چچّا ،ماموں،بھائ،دوست اور پڑوسی یہ رشتے کہاں حیثّیت رکھتےہیں؟انسان تو اس
قدر بےحس ہو گیاہےکہ کورونا عذاب سے بھی جرائم میں کوئ کمی نہیں آئ۔اس میں کچھ ایسے واقعات ہوۓکہ
دل خون کے آنسو رویالیکن آگر ہم اسے بیان کرنے کو بیٹھ جاۓ
تو یقین کیجیۓ
کہ صحفات کے صحفات سیاہ ہو جائیں گےلیکن ان ضمیر فروش کے ظلم وزیادتی اور ان بے گناہ
لوگوں کے آہ کو بیان نہ کرسکے گۓ۔
حدیث
مفہوم ہے: آگر قوم میں علانیہ فحاشی یعنی بے حیائ، فسق وفجور اور زناکاری ہونے لگ جاۓ
تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے
لوگوں میں نہ تھیں ۔:
حدیث
میں علانیہ فحاشی کے بارے میں ہے لیکن وہ کونسی
گناہ ہےجو اس قوم میں موجود نہیں ؟ پہلے قوموں
کو ایک گناه کے سزا میں غرق کیا مگر امت محمدي محمدﷺ کی دعا کی بدولت ایک ساتھ برباد نہیں ہوۓحالانکہ
ہر گناہ اپنی حد کراس کرچکی ہے۔ہمارے لیے یہ سزا کافی نہیں کہ بیت الله شریف کا طواف ہم پر بند ہوگیا ۔اللہ نے اپنے گھر کے دروازے ہم پر بند کردیں لیکن ہم وہ بد نصیب
قوم ہےکہ االله کےگھر میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے پر بھی ایک دوسرے کے خون بہارہے
ہیں ۔کیا مساجد امن کی جگہ ہیں یا افراتفری؟
ڈینگی
نے لباس مکمل کروایااور کورونا نے نقاب اب ہمیں سمجھ جانا چاہے کہ االله ہم سے کیا چاہتاہے۔میں ان چند سطروں میں آپ سب لوگوں سے التماس کرتی ہوں کہ آئیں سب ملکر قوم یونس کی طرح استغفار کریں۔ اس سے پہلے
کہ ہم قوم عاد ، ثّمود ،لوط و نوح کی طرح لقمہ اجل بن جائیں ۔ہمیں کندھا دینے کےلیۓ
اور چہرہ دیکھنے کےلیۓ
اپنے نہ ہواور نہ چھپنے کے لیۓ
کفن ہو۔ فلاح پانے والوں کےلیۓ
تو کورونا عذاب بھی کافی ہے۔یا ہم منتظر ہے آگ وپتھر برسنے کے لیۓیا
سرکش قوموں کی طرح ایک ساتھ غرق ہونے کے حقدار ہیں ؟
اعمال
کو بہتر بنانے کے لیۓ
سب سےپہلے ہمیں خود اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگااور پھر اپنے بچوں کی بہترين تربیت
کو اپنی زندگی کی اولین فرض سمجھنا ہوگا۔اس معاشرے کو ہم اسوقت تک نہیں سدھر
سکتے جب تک ہم اسے بہترين شہری نہ دے۔ یہائ تربیت ہمیں حیوانیت سے افضل کرتی ہے اور
اس کے شایان شان ہمیں اشرف المخلوقت کے لقب سے نوازا گیا۔ اس عظیم درجے
کی احترام ہم سب پر فرض ہے۔
Comments
Post a Comment