زندگی کے روپ
ازقلم تانیہ شہزاد
السلام
علیکم !
زندگی
کے بہت روپ ہیں ا ور ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کو کس رنگ میں دیکھتے ہیں زندگی کو دیکھنے
کا سب کا منفرد زاویہ ہے اور غلط کوئی بھی
نہیں ہر کوئی زندگی کو اپنے اپنے حالات و واقعات کے مطابق دیکھتا ہے اور اسی کےمطابق
اس کی تشریح کرتا ہے۔مگر بات صرف۔حالات و واقعات کی ہی نہیں ہے زندگی کو دیکھنے کا
ہر انسان کا مخصوص زاویہ ہے تب ہی تو اگر ایک دو لوگوں کو بالکل ایک جیسے ہی حالات
میسر ہوں تب بھی دونوں کا تجزیہ زندگی کے بارے میں مختلف ہی ہوتا ہے۔کیونکہ ہر ایک۔انسان
کا طبعی مزاج فطری خصوصیات سوچنے کا انداز چیزوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا انداز ترجیحات
پسند ناپسند اور علم تجربہ مشاہدہ اور عقائد و نظریات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتے
ہیں تب ہی تو ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد یہاں تک کے ایک ہی ماں باپ کی اولاد چاہے
وہ جڑواں ہی کیوں نہ ہو ایک دوسرے سے بے حد مختلف ہوتی ہے اور یہ اختلاف زندگی کا حسن
ہے۔مگر اس اختلاف کو سمجھنا اور خوش دلی سے تسلیم کرنا بے حد ضروری ہے۔بعض اوقات مزاج
اور زاویہ نظر کا یہ اختلاف زندگی میں بہت سی تلخیاں اور کڑواہٹیں گھول دیتا ہے۔ایسا
تب ہوتا ہے جب ہم ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے اور ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کر پاتے۔
ہم جن رشتے تعلقات میں گندھے ہوتے ہیں ان سے فرار کسی صورت ممکن نہیں بالفرض اگر ہم
کسی سے تہی دامن ہو بھی جائیں دنیا میں تو آخرت میں اس کے بارے میں سخت جواب
دہی ہے اور رہی بات فرار کی تو وہ بھی کسی
صورت ممکن نہیں۔انسان جب دنیا کے مصائب و مشکلات سے تنگ آجاتا ہے تو آہستہ آہستہ جینے
کی امید ختم ہونے لگتی ہے اس وقت انسان چیزوں سے بھاگ جانا چاہتا اپنی جان چھڑوا نا
چاہتا ہے اور ہر تنگی تکلیف سے مکمل نجات چاہتا ہے مگر بات یہ ہے کہ بہت جلد اسے ادراک
ہو جاتا ہے کہ زندگی کے مصائب و مشکلات سے فرار کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ مشکلات اور
مصائب تو ہر جگہ ہی موجود ہیں اور مکمل خوشی اور مکمل راحت تو اس دنیا میں میسر ہے
ہی نہیں تب اس کا دل اس دنیا سے اچاٹ ہونے لگتا ہے اور پھر وہ اس زندگی سے ہی نجات
چاہتا ہے اور اس کا اسے ایک ہی حل نظر آتا ہے اور وہ ہے موت۔تب ہی تو لوگ اپنے مصائب
سے تنگ آکر خودکشی کی جانب راغب ہوتے ہیں مگر یہاں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا موت
ابدی نجات ہے؟؟؟
نہیں
عقل تو یہ نہیں بتاتی کہ موت مکمل فنا ہے یا پھر موت ہی انسان کی زندگی کے مصائب کا واحد حل ہے۔بحثیت مسلمان
ہمارا موت کے بعد کی زندگی پر عقیدہ اٹل ہے ۔تو موت کی اپنی سختیاں ہیں قبر و حشر کے
اپنے مراحل ہیں خودکشی کا وبال الگ ہے۔ایسے میں خودکشی کی کوشش یا مرنے کا خیال تو
سراسر بے وقوفی ہی لگتا ہے تو پھر آخر حل کیا ہے۔مر سکتے نہیں کہ موت کا وقت اٹل ہے
مرنے کی چاہ کرنا ویسے ہی گناہ ہے خودکشی حرام ہے جینا ویسے ہی دشوار ہے۔تو پھر انسان
آخر کرے تو کیا؟ہمارے کوئی اعمال بھی ایسے خوبصورت نہیں کہ موت کی بے خوف ہو کر چاہ
کر سکیں اور موت تو ویسے بھی ایک الگ آزمائش ہے قبر و حشر کی سختیاں جواب دہی۔تو موت
تو صرف اس عارضی دنیا کہ مصائب سے نجات کا ذریعہ ہوئی نہ کہ مکمل طور پر مصائب و مشکلات
سے نجات اور وہ بھی انسان کے ہاتھ میں نہیں کہ انسان لاکھ مرنے کا خواہش مند ہو موت
کا تو اپنا وقت مقرر ہے وہ تو اس وقت پر ہی آئے گی جب تک زندگی ہے جینا تو ہے۔اس پر
انسان کا اختیار تو ہے نہیں ۔ایسے میں نجات کا تو ایک ہی ذریعہ نظر آتا ہے وہ ہے مکمل
فنا۔یعنی کہ سرے سے انسان کا وجود ہی اس صفحہ ہستی سے مٹ جائے جیسے کاغذ جلنے کے بعد
راکھ ہو جاتا ہے اور اس کا وجود باقی نہیں رہتا صرف راکھ ہوتی ہے۔مگر بات یہ ہے کہ
انسان کا مکمل فنا ممکن ہی نہیں اس سے تو موت کے
بعدجی اٹھنے کا وعدہ ہے قبر حشر کے
مراحل ہیں دنیا کی زندگی کی جواب دہی ہے جزا و سزا ہے نعمتوں سے بھرپور جنت ہے عذابوں
سے بھرپور دوزخ ہے اور یہ زندگی تو انسان پر آزمائش ہے۔یہاں تنگی بھی ہے آسائش بھی
ہے غم بھی ہے خوشی بھی ہے راحت بھی ہے بے سکونی بھی اچھائی بھی ہے
برائی بھی ہے مشقتیں مصیبتیں آزمائشیں سب کچھ ہی ہے
یہی انسان کا امتحان ہے اور اس پر ثابت قدم رہنا ہی
بندگی کا تقاضہ ہے۔اور اس کے بدلے میں بہترین اجر ہے اور روگردانی کی صورت میں بھیانک
عذاب۔تو بات یہ ہے کہ اللّٰہ رب العزت نے انسان کو جو یہ امتحان اور آزمائش میں ڈالا
ہے اس کو تسلیم نہ کرنا اس سے بیزاری کا اظہار کرنا اور اس سے فرار کی سوچنا بالکل
بے وقوفی ہو گی کیونکہ اول تو ایسا ممکن ہی نہیں اور انسان فرار اختیار کر بھی لے تو
اللّٰہ کی جواب دہی سے نجات ممکن ہی نہیں۔تو پھر بہتر ہے کہ انسان اللّٰہ پاک کی رضا
کو خوش۔دلی سے تسلیم کرے اس امتحان کو رب کی رضا جانتے ہوئے قبول کرے اور اسی پر راضی
رہے یہی بندگی کا تقاضہ ہے اور اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔بات یہ ہے کہ جب فرار
ممکن ہی نہیں تو کیوں نہ فرار کے چکروں میں رہنے کی بجائے تسلیم کر لیا جائے۔اور ایسا
بھی نہیں کے فرار کے سوا حل ہی نہیں انسان کو کیسے ہی مسائل درپیش ہوں ان کا حل ممکن
ہے اللّٰہ کسی جان پر ظلم نہیں کرتا ہر ایک پر اس کی استطاعت کے مطابق ہی بوجھ ڈالا
گیا ہے اور جس پر جو بھی بوجھ ہے وہ اس کو سہارنے کی طاقت ضرور رکھتا ہے ۔تو پھر مسائل
سے تنگ آکر فرار کی چاہ انسان کی اپنی کم ہمتی اور بزدلی ہے۔ہر انسان کی زندگی میں
مصائب ہیں مشکلات ہیں ان کی نوعیت اور شدت مختلف ہی سہی مگر کوئی بھی مکمل سکھ میں
نہیں اور کسی کو کیسے ہی مصائب درپیش ہوں چاہے وہ دوسرے کی نظروں میں معمولی کیوں نہ
ہوں اس کے اپنے لیے وہ بہت بڑے ہوتے ہیں۔بات تو ہے کہ انسان ان مشکلات کا آزمائشوں
کا مصیبتوں کا سامنا کیسے کرتا ہے۔اللّٰہ پاک نے انسان کو مشقت میں رہتا ہی پیدا کیا
ہے اور بالخصوص مومن کے لیےتو دنیا ویسے ہی قید خانہ ہے۔دنیا تو کافر کے لیے جنت ہے۔اب
قید خانے میں بھلا سختیاں کب نہیں ہوتی۔مگر فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ انسان ان مصائب
سے نپٹتا کیسے ہیں وہ کیسے ان مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے مگر اس کے کیے ضروری ہے کہ
کم از کم انہیں تسلیم تو کیا جائے تب ہی حل
کی صورت ممکن ہے اور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک مشکل حل ہو تو کوئی دوسری درپیش نہ
ہو انسان جیسے جیسے مشکلات سے نپٹتا جاتا ہے ویسے ویسے مزید مشکلات آتی جاتی ہیں انسان
کا ظرف بڑا ہوتا جاتا ہے انسان مضبوط ہوتا جاتا ہے اور پھر انسان کو بڑی سے بڑی مشکل
بھی بہت معمولی لگتی ہے اور یہی زندگی کی آسانی ہے۔ایسا نہیں کہ وہ زندگی اچھی ہے جس
میں مشکلات نہ ہوں یہ زندگی ویسی ہے ہی نہیں بلکہ زندگی وہ خوبصورت ہے جس میں انسان
کو مصائب کا سامنہ کرنا آجائے ان کے ساتھ مقابلہ کرنا اور پرسکون رہنا آجائے۔اور اس
کے لیے کوئی چمگادڑ کا خون نہیں پینا ہوتا نہ ہی الو کی آنکھیں کھانا ہوتی ہیں نہ ہی
مینڈھک کی یخنی پینا ہوتی ہے اور نہ ہی کالا چوغہ پہن کر قبرستان میں چالیس دن کا چلہ
کاٹنا ہوتا ہے۔یہ سب اتنا بھی مشکل نہیں یا کم از ناممکن نہیں۔ضرورت ہے سب سے پہلے
زندگی کے مسائل کو تسلیم کرنے کی اس کے بعد ان کے حل کا مصمم ارداہ کرنے کی اس یقین
کے ساتھ کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور انسان میں موجودہ مسائل کے حل کی قوت موجود
ہے اور مسلسل کوشش سے ہر چیز کا حل ممکن ہے۔کوششیں کبھی بھی رائگاں نہیں جاتیں ۔انسان
کے لیے وہی ہے جس کی وہ کوشش۔کرتا ہے۔تو کوشش سے سب ممکن ہے ہر مسئلے کا حل۔ممکن ہے
اور فرار کوئی حل نہیں نہ ہی مکمل نجات ممکن ہے ۔سو کیوں نہ زندگی کو خوبصورت طریقے
سے جیا جائے اور اس کے لیے اگر انسان کو لگتا ہے کہ اس کی زندگی خوبصورت نہیں ہے تو
پھر وہ خود اپنی زندگی کی بدصورتیاں ختم کرکے اس کو خوبصورت بنانے کی کوشش کریں کو
شش کرنے میں حرج ہی کیا ہے مشقت میں تو انسان
ویسے بھی ہے تو اپنی بہتری کے لیے مشقت اٹھانے میں کیا جاتا ہے فرار کے چکروں میں خود
کو مزید تکلیف میں مبتلا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے اٹھیں مشکلات کو آمین کہیں اور ان
پر فاتحہ پڑھیں۔
********************
Comments
Post a Comment