Sakoon ki talash by Ayesha Riaz Chahal

♦️ سکون کی تلاش
✒️ عائشہ ریاض چاہل :سمندری


میں اپنی زندگی سے بہت مایوس ہوچکا تھا ، میں نے لوگوں کو خوش کرنے میں اپنی ساری حسرتیں ،تمنائیں،خواہشیں حتی کہ اپنی ہر چیز جو مجھے عزیز تھی ، قربان کردی ۔۔۔
لیکن جانتے ہو! لوگ پھر بھی راضی نہیں ہوئے ، انہیں جب بھی موقع ملتا مجھے گرانے کا، ہرانے کا،وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ۔۔
اور دکھ کی انتہا نہ رہتی جب مجھے معلوم ہوتا کہ مجھے ہرانے میں سب سے زیادہ ہاتھ میرے اپنوں کا ہے۔۔
وہ جو مجھے بہت عزیز تھے جن کے لیے میں نے اپنا سب کچھ قربان کیا۔۔۔
  جانتے ہو ۔۔۔
کتنا درد ملتا ہے جو بےآواز ہوتا ہے کتنا خون بہتا ہے جو بغیر رنگ کے ہوتا ہے اور وہ خون اعتماد کا ہوتا ہے ۔۔۔
جن پر ہم آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتے ہیں وہی دھوکا دے کر ہماری آنکھیں کھولتے ہیں۔۔۔
مگر جب میری آنکھیں کھلی تو اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی
میں نے سب کچھ کھو دیا تھا میرے پاس کچھ تھا ہی نہیں جس کے سہارے میں زندہ رہتا ،
میں بہت تھک چکا تھا مجھے کہیں بھی سکون نہیں مل رہا تھا ،
وہ جو میرا سکون تھے میری راحت تھے وہی مجھے چھوڑ گئے تھے تو مجھے چین  کہاں سے میسر آنا تھا۔
لیکن میں پھر بھی سکون کی تلاش میں لگا رہایا ہر چیز آزما لی کہ شاید اس سے کچھ راحت ملے لیکن بے سود ۔۔
سب کچھ کرنے کے باوجود ۔۔۔ ایک چیز تو میں بھول ہی گیا تھا ۔۔۔
جانتے ہو وہ کیا ہے۔۔۔؟
اللہ تعالیٰ
میں نے دنیا کی ہر چیز آزما لی لیکن اس دوران اپنے رب کو ایک دفعہ بھی یاد نہیں کیا۔
بےشک میں رب کو بھول بیٹھا تھا مگر میرے اللہ تو مجھے نہیں بھولے تھے۔
اللہ تعالیٰ مجھے ایک بزرگ کے پاس سے گزرتے ہوئے یاد آئے ،  رات کو سڑک پر بیٹھے ایک بزرگ نے  مجھے روک کر پوچھا بےچین ہو ۔۔۔؟
میں خاموشی سے گزرنے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی۔

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿ؕ۲۸﴾
یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے ۔
یکدم میرے قدم رک گئے ، مجھے لگا جیسے میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو ، میرا جسم بالکل ٹھٹھر گیا تھا ، سن ہوتے جسم کے ساتھ میں وہی کا وہی کھڑا رہا، ٹانگیں چلنے سے انکاری تھی ۔۔۔
میں نے اپنی ساری زندگی لوگوں کو راضی کرنے میں گزار دی لیکن اپنے پروردگار کو ایک بار بھی یاد نہ کیا ،
اپنوں کی یاد مجھے تیر سے چھلنی کررہی تھی لیکن رب العالمین کی یاد نے مجھے جھنجھوڑا تک نہیں۔۔۔
افسوس ہے مجھ پر۔۔۔
 رب کے خوف سے میرے آنسو بہنا شروع ہوگئے ۔۔
میں اسی طرح بےجان جسم لیے کھڑا تھا کہ وہی بزرگ میرے پاس آئے ۔۔۔
آؤ ادھر بیٹھو۔۔۔ انہوں  فٹ پاتھ کی طرف اشارہ کیا تو میں ان کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا۔۔
بیٹا میں جب بھی بےچین ہوتا ہوں یا کوئی بھی پریشانی مجھے گھیرتی ہے تو کوئی نہ کوئی آیت مبارکہ میرے ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے ،
کافی سال پہلے میں عمر میں تقریباً تمہارے جتنا تھا ،
پریشانیوں نے مجھے گھیر رکھا تھا مجھے کسی بھی چیز میں سکون نہیں مل رہا تھا،
میرا ہر دن  بےچینی اور اضطراب میں گزرتا تھا ایک دن تو میں بالکل مایوس ہوکر بیٹھ گیا ۔۔۔
کچھ دنوں بعد میرا دل کیا کہ میں نماز پڑھوں اور قرآن پاک کی تلاوت کروں۔۔
بہرحال ! میں نے قرآن ابھی کھولا ہی تھا کہ جس آیت مبارکہ پر میری نظر پڑی وہ یہی تھی ۔۔
" یاد رکھو دلوں کا اطمینان اللہ کی یاد میں ہے"
اور اس دن میری بھی یہی کیفیت تھی جو اس وقت آپ کی ہے۔
 اس سے مجھے میرے سارے سوالات کے جوابات قرآن مجید سے مل گئے۔
جانتے ہو بیٹا ۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں آزماتے ہیں کبھی کچھ دے کر اور کبھی لے کر
اللہ تعالیٰ آزماتے ہیں کہ میرا بندہ کس حالت میں مجھے یاد کرتا ہے۔
 اور جب ہم اسے بالکل بھول جاتے ہیں تو وہ ہمیں توڑ کر پھر جوڑتا ہے وہ توڑتا ہے تاکہ ہم اس کی یاد سے جڑ جائیں۔۔
وہ ہمیں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔۔
بزرگ کہہ کر خاموش ہوگئے اور میں ان کی باتوں میں اللہ کو تلاشنے لگا ۔۔۔
بے شک میرا رب اپنے بندے کو اکیلا نہیں چھوڑتا ، اسی لیے تو یہ بزرگ وسیلہ بن کر میرے سامنے آگئے ۔۔۔
میری آنکھوں سے زارو قطار آنسو۔ بہنے لگے لیکن آج یہ آنسو مجھے تکلیف نہیں دے رہے تھے بلکہ میرے دل میں جمی بےچینی کو خرچ رہے تھے ۔۔۔
اور میرے آنسو کا ایک ایک قطرہ پکار رہا تھا ۔۔
دلوں کا سکون اللہ کی یاد میں ہے۔۔۔
دلوں کا چین اللہ کی یاد میں ہے ۔

میں سمجھا دلی سکوں کے مطلب اس دن
جس دن آیت تطمئن القلوب پڑھی۔۔۔

Comments

Post a Comment