Maafi Article by Maryam Ahmad



معافی
از قلم مریم احمد
اُس کے مرنے کى خبر مجھے دى رہى تھی لیکن جیسے کچھ سنائى نہ دے رہا ہو یا یوں کہہ لیں کچھ سُننا ہى نہ چاہتى ہوں۔ یادوں کا ایک سیراب میرے سر تک آں پہنچا تھا۔ ایک آواز جو مجھے ہر طرف سنائى دے رہى تھی"اُسے کہنا مجھے معاف کر دے۔"
لیکن پتہ ہے کچھ لوگ، کچھ باتیں اور کچھ حرکتیں معاف نہیں کى جاتى ہیں پھر اِس کے لیے لوگ مر ہى کیوں نہ جائیں ۔ مجھے بہت بُرى طرح زچ کیا گىا تھا اور میرى جگہ بڑے آرام سے کسى اور کو دے دى گئى تھى۔ میں اُسے معاف کرنا چاہتى تھى لیکن پتہ نہیں کیوں میں معاف نہیں کر پا رہى تھی ۔ بہت سے آنسو میں نے ایک ساتھ اپنے اندر اُتارے تھے۔ زندگى بھى کتنى بے یقین سى چیز ہوتى ہے پہلے ہم خود مرنے کى باتیں کرتے رہتے ہیں اور جیسے ہى موت کو سامنے دیکھتے ہیں اللَّـهَ سے مہلت مانگنے لگ جاتے ہیں ۔
تکلیف بڑھتى جا رہى تھی تو میں نے قرآن کھول لیا۔ ایک سکون چاہتى تھى ایسا سکون جو مجھے اِن سب سے دور لے جائے ۔ میرے لیے دعا کر دیا کرو۔۔۔۔۔ کیا یار!!! کچھ مزے کا ہونا چاہیے زندگى میں ، بہت جى لیا اب بس میں مر جاوُں ۔۔۔۔ ارے پریشان کیوں ہو رہى ہے کچھ نہیں ہوتا مجھے۔۔۔۔ اب مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا۔۔۔۔ میرى نئ دوستیں بہت اچھى ہیں۔۔۔۔مجھے تمہارے ساتھ نہیں جانا اور آج کے بعد مجھ سے بات مت کرنا۔۔۔
جس کے لیے میں سب سے لڑتى رہتى تھى وہ مجھے اِس طرح چھوڑ کے جا رہى تھى۔ اُسے روکنے کى بہت کوشش کى مگر نئے لوگوں کا رشتہ بھى نشے کہ طرح ہوتا ہے اِس کے ہر گھونٹ کو اندر اُتارنے کے لیے دل بے چین رہتا ہے۔
بیشک ہم بات نہیں کرتے تھے مگر یارى تھى نہ وہ بھى پکى یارى۔ میں اُسکى مکمل خبر رکھتى تھی ۔ پھر وہ میرى باتیں کسى اور کو بتانے لگ گئ۔ یہ بات میرے منہ پر چابک کى طرح لگى تھى۔ اُس پہ کیسى اور کا اپر ہونے لگ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ میرے دل سے اُترنے لگ گئ تھى۔ اُسکى باتیں مجھے تکلیف دینے لگ گئ۔ میں اُس سے پوچھنا چاہتى تھى کہ وہ ایسا کیوں کر رہى ہے۔ مگر ایک دن اُس نے کچھ ایسا کیا جو بھولایا نہیں جا سکتا تھا۔ میرے اُس کى فیملى سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ اُس کا بھائى مجھے اپنى بڑى بہن کى طرح سمجھتا تھا۔ رشتے ختم ہو گئے تھے ۔ میرا دوستى کے نام سے اعتبار اُٹھ گیا تھا ۔ وہ رات مجھ پر بہت بھارى گزرى تھى میرا دل چیخیں مار مار کے رونے کو کر رہا تھا مگر آنسو اندر اُتارنے تھے۔ کہا جاتا ہے بے قدروں کے لیے رویا نہیں جاتا تو کیا کیا جاتا ہے ایسے لوگوں کے ساتھ۔ جو آپ کو آپ کى ہى نظروں میں گِرا دیں۔ کمرے میں روشنى ہوتے ہوئے بھی مجھے اندھیرا نظر آ رہا تھا ۔ وہ میرے کمرے میں موجود تھى۔ میرے چاروں طرف وہ مجھ پر ہنس رہى تھی کہ دیکھو تمہارا کیا حال کر دیا ہے ۔ میں نے آنکھیں بند کى اور دیوار کے ساتھ بیٹھتى چلى گئ۔ میں اِتنى کمزور نہیں تھى مگر پتہ ہے ہمیں مضبوط ہمارے مخلص رشتے ہى بناتے ہیں ۔ میں سونا چاہتى تھی مگر سو نہیں پا رہى تھی ۔ آج پہلى بار میں نے اللَّـهَ سے شکوہ کیا تھا کہ میں نے کیا بگاڑا تھا اُس کا جو اُس نے میرے ساتھ یہ سب کیا ۔ کیا واقع دنیا ہمیں صرف استعمال کرتى ہے ۔ یہاں کسى کے لیے جان بھی دے دو تو کیوں کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں ایسا کرنے کو نہیں کہا ۔ دل اور دماغ دونوں درد سے پھٹ رہے تھے۔ میں نے دُعاۓ نور پڑھنا شروع کر دى۔ میں نہیں چاہتى تھى کہ اِس تکلیف میں، میں اُسکے لیے کوئى بد دعا کر دوں۔ رات گہرى، مزید گہرى ہوتى گئ۔ میں نے اللَّـهَ سے اپنے لیے کبھى کچھ نہیں مانگا تھا پر آج میں اپنے لیے صبر مانگ رہى تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللَّـهَ جیسے جتنا صبر دیتا ہے اُسے اُتنا ہى آزماتا ہے ۔ تاریک رات کا اختتام ہو گیا تھا اور میں اِس نئ صبح کو اپنے لیے مزید روشن بنانا چاہتى تھى۔
دن گزرتے گئے اور بہت سى باتیں سامنے آنے لگ گئ ۔ لوگ اپنا ظرف دیکھا رہے تھے ۔ اِن سب کے بعد بھی میں صرف اتنا سوچنا چاہتی تھی کہ بیشک اللَّـهَ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ میں اُسے اپنے دل سے نکالنا چاہتى تھى ایسے جیسے ہم کبھى ملے ہى نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں نہ وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔ میرے زخم بھی بھرنا شروع ہو گئے تھے ۔ ایک دن اُس کے بھائى کى کال آئى۔ وہ رو رہا تھا مجھے میرى چھٹى حس خطرے کا آلارم دینے لگ گئ۔ آپى۔۔۔آپى زرى ہمیں چھوڑ کر چلى گئ ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ گئ ہے ۔ عجیب سا شور تھا ہر طرف پھر ایک دم سے سب تھم سا گیا تھا ۔ آپى زرى کو معاف کر دیں وہ مرتے ہوئے بھی کہہ رہى تھی اُسے کہنا مجھے معاف کر دے ۔ میں نے آنکھیں بند کر لى اور اُن لمحوں کو محسوس کیا جب ہم ساتھ تھے۔ میں نے اُس کى زندگى مانگى تھى لیکن وہ جا چکى تھى۔ ایک پتہ درخت سے گِر چکا تھا ۔ ایک زندگى کا قصہ تمام ہو چکا تھا ۔ ہم انسان بھی بڑى عجیب شے ہوتے ہیں جب تک ٹھوکر نہ لگے ہم سمجھتے نہیں ہیں کہ ہمارے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے ۔ جو تکلیفیں میں نے برداشت کی تھى، جو جنگ میں نے خود سے لڑى تھى اُن سب کے بعد بھی میں نے اُسے معاف کر دیا تھا ۔ میں نے اُسے معاف کر دیا تھا اللَّـهَ کے لے معاف کر دیا تھا ۔ مگر میرا دل ابھى بھى اس بات کو تسلیم نہیں کرتا ہے ۔ کسى سے اُسکا سب کچھ چھین کر اُس سے بھلائی کى اُمید نہیں کى جاتى ہے ۔ آج میں خود کو اِس تکلیف سے آزاد کرنا چاہتى ہوں میں اسے دل سے معاف نہیں کر پا رہى مگر میرى نیت اللَّـهَ جانتا ہے۔ آج چیخیں مار مار کر رونے کو دل کر رہا ہے کیونکہ میں یہ جنگ ہمیشہ خود سے نہیں لڑنا چاہتی۔ اُس کا معاملہ اوپر والے پر چھوڑ کر سکون چاہتى ہوں مگر دل نہیں مانتا ہے۔ میں اپنے زخم خود ہى بھر رہى ہوں کیونکہ انسانى رشتے ہمدردی کے نام پر صرف دھوکہ دے کر ہى گئے ہیں ۔

***********************

Comments

  1. This is really close to myy heart 🥺🥺🥺kml thought dear Maryam keep it up 👍💓❤️❤️❤️❤️

    ReplyDelete

Post a Comment