کَچى کلیاں
از قلم: مریم احمد
رات
بھر کى بارش کے بعد ایک حسین صبح کا آغاز ہو چُکا تھا۔ اماں صحن میں بیٹھى قرآن کى
تلاوت کر رہى تھى، على مسلسل مائرہ کو تنگ کر رہا تھا صبح ہى صبح اِن کا "دو ڈھکن
رول دے، دل ہى دل میں بول دے" والا ڈرامہ شروع ہو جاتا تھا۔ ہرسوں ایک پُرسکون
ماحول بنا ہوا تھا، ہوا کى تازگى، پرندوں کى چہچہاہٹ گو کے ماحول ميں ایک پُرسوز سُر
چاروں طرف بکھیرا ہوا تھا ۔آلودگی اور شور سے پاک صبح بھى کسى نعمت سے کم نہیں ہوتى
اور اِس میں ٹھنڈى ہوائیں جنت کا سماں پیش کرتى ہیں ۔ نائرا او نائرا زرا یہ میرا قرآن
پاک تو اندر رکھ دے اور اِس خیال پر سارى سوچیں جھٹک کر میں اماں کا قرآن پاک اندر
رکھنے چلى گى۔
ایک
دم سے بہت بلند آواز میں گانا بجنے لگ گیا۔۔۔
یہاں عرشوں کى کلیوں کا میلا ہے
اور
میں نے بھی ہر کھیل کھیلا ہے
تُوں کیا جانے میں دیوانہ ہوں کچى
کلیوں کا
تُوں
نہ مانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑوس
میں حیات صاحب کے بیٹے اپنے گھر چُھٹى گُزارنے آۓ
ہوۓ ہیں اور جب سے آۓ
ہیں تب سے محلے والوں کى صبح اسى طرح برباد ہو رہى ہے۔ اُففففف اماں یہ حیات چچا کے
بیٹے کو کوئى پوچھنے والا نہیں ہے کیا؟ روز بلند آواز میں گانے لگا دیتا ہے اگر اتنا
ہى شوق ہے تو آواز اپنے گھر تک محدود کیوں نہیں رکھتا۔۔۔ساتھ محلوں کو ضرور اپنے کارنامے
بتانے ہوتے ہیں۔ بس کیا کرے اب حیات بھائى کو کہا ہے وہ کہتے ہیں میرا بیٹا کُچھ دنوں
کے لیے ہى تو آیا ہے اِس پہ بھى پابندى لگا دوں کیا۔ اماں مجھے کوفت ہونے لگ گئ ہے
اِس روز روز کے ڈرامے سے گانوں کى آواز ہنوز برقرار تھى۔
تُوں کیا جانے میں دیوانہ ہوں کچى
کلیوں کا۔۔۔
اور
یہ فقرہ میرے ذہین میں اَٹک کر رہ گیا۔ کیا مطلب تھا اِسکا۔۔۔۔ تماشائى۔۔۔۔استعمال
شدہ اشیاء ۔۔۔۔۔لڑکیاں۔۔۔۔۔
کُچھ
دن پہلے عورت مارچ شروع ہوا تھا عورتیں اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے کے لیے سڑکوں ہر
نکلى ہوئى تھى۔ اِن بدقسمت عورتوں کو نہیں پتا کہ اسلام نے اِنہیں اِن کے سارے حقوق
دیے ہیں اور مرد کو اِنکا محافظ بنایا ہے۔ آج کى بڑھتى ہوئى نسل خود کو تباہى کى طرف
گامزن کر رہى ہے وہ یہ سوچنا ہى نہیں چاہتى کہ کیا صیح ہے اور کیا غلط۔۔۔۔ لڑکیوں کى
کچى عُمر کى نادانیاں دیر تک اُن کا پیچھا کرتى ہیں پھر چاہئے وہ کسى سے لیے گئے ہمدردى
کے دو بول کى بات ہى کیوں نہ ہو۔ لڑکیاں کھلونا تو نہیں ہوتى کہ اُسکے جذبات سے کھیل
کر، اُسے استعمال کر کے پھینک دیا جاۓ
اور نہ ہى لڑکیاں بےوقوف ہوتى ہیں کہ کوئى بھى اُنہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کر
رہا ہو اور وہ بےخبر رہے۔
اللَّه
نے لڑکیوں کے دماغ میں ایسے سینسرز لگاۓ
ہوۓ ہیں جو سکینڈز میں سامنے
والے کى نظروں کى نیت کو جانچ لیتى ہیں، اِن کى حِس اِن کو آنے والے خطرے کا پہلے ہى
آلارم دے دیتى ہے مگر پھر بھى یہ بہک جاتى ہیں کیوں؟؟؟ اپنى تسکین کے لیے، اپنى روح
کى تسکین کے لیے یا اپنى انا کى تسکین کے لیے جو صرف دیکھاوے کے لیے ہوتى ہے۔ اللَّه
نے عورت کو صنفِ نازک ضرور بنایا ہے مگر اِسکا مطلب یہ ہرگِز نہیں ہے کہ وہ دوسروں
کے لیے ذریعہ تسکین بنى رہیں۔ دوسروں کو دیکھ کر اُسى کے رنگ میں رنگنے کى کوشش نہیں
کرنى چاہئیے کہ پھر جس کا دل کرے وہ استعمال کر کے چلا جاۓ۔
لڑکیاں
اُس پھول کى طرح ہوتى ہیں جیسے اگر اُسکى شاخ سے جُدا کر دیا جاۓ
تو کُچھ وقت کے بعد وہ اپنى خوشبو کے ساتھ اپنى اصل شکل بھى کُھو دیتا ہے۔ خود کو ڈھانپ
کے رکھو، یہ نہیں کہہ رہى کے خود کو گھر تک ہى محدود کر لو، لمبا سا پردہ کرو، نہیں
۔۔۔۔مگر جتنا تم نے اللَّه سے وعدہ کیا ہے وہ تو پورا کرو۔ منہ نہیں ڈَھاک رہى ہو تو
خود کو اِس طرح تو ڈھانپوں کے کوئى دوسرا میلى نگاہ نہ ڈالے مگر ہم لڑکیاں اپنے ارمانوں
میں کہاں کسى کى سنتى ہیں۔ گانے کى آواز ابھى تک آ رہى تھى۔۔۔کچى کلیاں۔۔۔۔کچى کلیاں۔۔۔۔۔۔اِن
ہى سوچوں پر ممیں سر جھٹک کر اپنے کام میں لگ گئ ۔
اللَّه سب لڑکیوں کو اپنے امان
میں رکھے اور سب کے نصیب اچھے کرے آمین
آپ
سب کى دُعاؤں کى طلبگار
مریم احمد
****************
Comments
Post a Comment