Gold medal ek ehzaz ya .... Article by Waleed Shokat


گولڈ میڈل ایک اعزاز یا۔۔
تحریر۔ولید شوکت
رابیل کو یونیورسٹی لا کالج سے  دو مضامین میں ٹاپ کرنے پر دو گولڈ میڈل دئیے گئے۔
میری اور رابیل کی نئی نئی شادی ہوئی تھی لہذا پیسوں کی اشد ضرورت تھی۔رقم بچا  رکھنے کے ابو کے نہ مالی حالات تھے اور نہ ہی خیالات،اس لیے پاس کچھ نہی تھا۔میں نیا وکیل تھا(بے روزگار ہی سمجھیں ) اور رابیل سی ایس ایس کا دیوانہ (فی الوقت بے روزگار )۔اس تناظر میں رابیل کے گولڈ میڈل ملنے کی خوشی دیدنی تھی۔گاؤں میں اطلاع دے دی گئی تھی۔(ابو اور امی تب تک لاہور شفٹ نہی ہوۓ تھے )۔میڈل ملنے کی تقریب والے دن تہذیب خواتین کو لے کر گاؤں چلا گیا جہاں  ابو جی نے "خصوصی پروٹوکول" کا بندوبست کیا ہوا تھا۔
تقریب والے دن میں، رابیل اور نبیل یونیورسٹی ہال پہنچے جہاں پہ تقریب منعقد ہونا تھی۔ایک دن قبل گاؤن کرایہ پہ حاصل کر لیا تھا جو کہ میڈل وصولی اور فوٹو سیشن کےوقت کام آنا تھا بلکہ انتظامیہ کی طرف سے پہننا ضروری قرار دیا گیا تھا۔
امید تھی کہ گولڈ میڈل بیچ کر ابو کو پیسے دئیے جائیں گے،رابیل اپنے ایل ایل ایم کی فیس جو کہ 72 ہزار تھی،جمع کروا لے گا۔گھر کا خرچ سکون سے ہو گا۔(جن کو اس سے قبل گولڈ میڈل مل چکے تھے انہوں نے اس کے خالص سونے کا ہونے کی تصدیق کی تھی)۔
گاؤں میں ابو نے استقبال کے لیے ہار منگوائے ہوۓ تھے۔نیاز کی دیگیں پک رہی تھیں۔تہزیب نے ہمیں فون کر کے تیاری کی صورتحال سے آگاہ کر دیا۔
یہ پنجاب یونیورسٹی کا 120 واں کانوکیشن تھا۔مہمان خصوصی گورنر پنجاب لطیف کھوسہ صاحب  تھے۔یونیورسٹی کےوائس  چانسلر ڈاکٹر مجاھد کامران اور دیگر ماہرین تعلیم بھی سٹیج پر جلوہ افروز تھے۔
دس بجے رابیل کو دو گولڈ میڈل"محمد امین گولڈ میڈل" اور "پروفیسر رفیق گولڈ میڈل" مل گئے۔حاملین گولڈ میڈل کے اعزاز میں پر تکلف ریفریشمنٹ کا بھی اہتمام تھا۔چونکہ ان  کے پیٹ خوشی سے ہی  بھر گئے تھے چناچہ نئے گولڈ میڈلسٹوں کے ساتھ آئے" لواحقین" اور یونیورسٹی ملازمین ،کلرکوں اور سوئیپروں نے ریفریشمنٹ پہ ہاتھ صاف کیے۔میں اور نبیل اپنی روایتی سستی کی بناء پر اس سب سے محروم رہے جس کا ہمیں دلی دکھ تھا۔
قصہ مختصر یہ کہ رابیل کو ساتھ لیا اور گاؤں کی طرف عازم سفر ہوئے۔(ہم بطور سکیورٹی ہمراہ تھے)
گاؤں میں محلے کی بہت سی  خواتین ہماری خوشی دوبالا کرنے کے لیے ہمارے گھر میں جمع تھیں۔گاؤں پہنچنے پہ ابو نے دروازے پہ استقبال کیا۔پورا محلہ جمع ہو گیا،پتیاں نچھاور ہوئیں اور گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔
یہاں بھی زبردست فوٹو سیشن ہوا۔سب انتہائی خوش تھے اور یہ ایک یادگار دن تھا۔
نیاز تقسیم کے بعد  محلے کی کچھ خواتین نے میڈل کو اپنے ہاتھوں میں لے کر وزن کا اندازہ لگا کر بتلایا کہ "تن تولے دا پکا اے"
یعنی دو گولڈ میڈل،چھ تولے سونا۔
ابو نے گولڈ میڈل دیکھے اور حتمی اعلان کیا کہ گولڈ میڈل  خالص سونے کے ہی ہیں۔رات کو مختلف مشورے ہوۓ۔ملنے والی رقم اور اخراجات کے تخمینے لگاۓ گئے۔
اگلے دن ابو جی اور میں میڈل لے کر سونار کے پاس گئے ۔اس نے" منحوس خبر" دی کہ" یہ سونے کے نہی ہیں"۔ہم نے کہا کہ یہ اعلی کارکردگی اور شبانہ روز محنت کو خراج تحسین پیش کرنے  کے اعتراف میں ملے ہیں۔آپ سے غلطی ہوئی ہے۔ایک دفعہ پھر بغور دیکھیں ۔اسنے ہماری بات کو مرعوب ہو کر سنا۔ میڈل کسوٹی پہ پرکھا اور کہا کہ "نہی جی،یہ سونا نہی ہے"۔
"دلی صدمے "میں ہم گھر واپس آ گئے اور اپنی تحقیق کا دائرہ وسیع کیا تو معلوم ہوا کہ "گولڈ" میڈل سونے کا نہی ہوتا بلکہ یہ ایک "اعزاز" ہوتا ہے جو کہ اعلی کارکردگی کے اعتراف میں بطور یادگار  رکھے جانے کےدیا جاتا ہے۔اس بات کا ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ صاحب ثروت لوگوں کے لیے  "اعزاز"ہی اصل چیز ہے،پیسے تو ختم ہو جاتے ہیں مگر اعزاز کبھی ختم نہیں ہوتا۔(ہمارے لیے "اعزاز" کچھ معنی نہی رکھتا )۔بہرحال ہم۔یونیورسٹی انتظامیہ پہ سخت نالاں تھے۔ہمارا موقف یہ ہےکہ "اعزاز "ان کے لیے پر کشش ہو سکتا ہے جن کی بنیادی ضروریات پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہوں۔اور جن کی ضروریات  ہی پوری نہ ہوں ان کے لیے دو گولڈ میڈل جو کہ در حقیقت "گولڈ" کے نہ ہو،کوئی اہمیت نہی رکھتے۔بہرحال ہم "چور دی ماں تے بکل وچ منہ" کے مصداق چپ رہے اور میڈل "گولڈ" کے ہونے کا ہی اعلان کرتے رہے۔
 وقت گزرتا رہا۔
گولڈ میڈل کے حوالے سے امید کی کرن ایک دن تب چمکی جب گولڈ میڈل سپانسر کرنے والے کی امریکن پلٹ بیٹی (آنٹی) نے رابیل سے رابطہ کر کے اپنے گھر مدعو کیا۔
اس دن قوی امید تھی کہ ہو نا۔نہ یہ "کیش پرائز" سے نوازیں گی۔یہ خاتون برسوں سے امریکہ میں مقیم تھیں اور چند دنوں کے لیے ہی پاکستان آئیں تھیں لہذا "کیش پرائز" والے ہمارے خیال کو تقویت ملی کہ امریکہ کے مادہ پرست معاشرے میں رہتے ہوئے ان کی سوچ کچھ مادی ضرور ہوئی ہو گی۔اور اس لیے وہ خالی "اعزاز" جیسے" روحانی انعام" کی قائل نہی ہونگیں مگر ہمارا یہ خیال بھی اس وقت غلط ثابت ہوا جب اس نے بھی رابیل کی کچھ تصویریں لیں،علمی موضوعات پہ گپ شپ کی اور خیر آباد کہا۔
اصل میں یہ خاتون امریکہ میں "اسلامک سنٹر" چلا رہی تھیں لہذا ان میں "روحانیت" باقی تھی۔
ہاں ان کا  پن رابیل کے ہاتھوں میں غلطی سے رہ گیا،جو انہوں نے آٹو گراف لینے کے لیے رابیل کو دیا تھا۔
یہی ایک مادی چیز تھی جو کہ  ہمیں گولڈ میڈل سے حاصل ہوئی۔
********************

Comments