آزادی
آج
کل ہر طرف آزادی آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کس سے آزادی چاہیے؟؟
اللہ نے تو کسی انسان چاہے مرد ہویا عورت غلام پیدا نہیں کیا تو اس آزادی کا مطلب؟؟
کیا نکاح سے آزادی چاہیے؟ اپنے شوہروں سے آزادی چاہیے؟؟ لیکن کیا کوئی جانتا ہے کہ
پھر اس آزادی کے بعد کیا ہو گا؟؟ ہر کام خود کرنا ہو گا - اب سب سوچیں گے کہ پہلے بھی
تو اتنا کام کرتے ہی ہیں تھوڑا اور سہی -
کوئی اس عورت سے جا کر اس کی ازیت
کی انتہا پوچھے جس کی چھوٹی سی بچی کے ہونے کے باوجود اس عورت کوآزاد کر دیا جاۓ
کہ جاؤ سنبھالو اس اولاد کو تم آزاد ہو اپنی مرضی سے رہو-کوئی اس لڑکی سے جا کر اس کا درد محسوس کرے
کہ جب وہ گھر آۓ
تو آتے ہی اپنی ماں کو تلاش کرے - لیکن یہ کیا ماں تو اس لڑکی ضرورتیں پوری کرنے میں
لگی ہے - کیونکہ وہ عورت تو آزاد ہے اپنی مرضی سے رہ رہی ہے - مرد کی طرح کما رہی ہے
اور ادھر اس عورت کی لڑکی کچن میں جا کر کچھ کھانے کو ڈھونڈتی ہے- کچھ ملتا ہے تو کھا
لیتی ہے نہیں ملتا تو بغیر کسی کو بتاۓکہ
مجھے کچھ کھانے کو نہیں ملا اپنی اکیڈمی کے لیے بھاگ جاتی ہے - کیونکہ اس نے پڑھنا
ہے اپنی مرد جیسی ماں کی زمہ داری کو ہلکا کرنا ہے- اس کو سکون دینا ہے-
ان سب میں اس بچی کا رشتوں پر سے
اعتبار ٹوٹ سا جاتا ہے- خون کے رشتے بے معنی لگتے ہیں- کسی سے وہ بچی شکوہ نہیں کرتی-
بس خدا سے ایک چھوٹے سے خاندان کی دعا کرتی ہے- اللہ سے بہن بھائی مانگتی ہے- نادان
سی بچی کبھی کبھی اللہ کو ایک مقررہ وقت کی مدت دیتی ہے کہ اگر اب بھائی نا ملا تو
اللہ سے بات نہیں کرے گی- آہستہ آہستہ وہ بچی یہ سب ہنسی خوشی برداشت کرتے ہوۓ
بڑی ہو جاتی ہے - اس کو سب سمجھ آنے لگتا ہے وہ اپنی دوستوں کو اس وقت حسرت سے دیکھتی
ہے جب وہ اپنے باپ کی شفقت اور اپنے بھائی سے لڑائی کا بتاتی ہیں - نتیجہ یہ نکلتا
ہی کی وہ لڑکی کسی پر اعتبار نہیں کرتی- ایک فقط ایک نکاح کا رشتہ ٹوٹ جانے کے بعد
اتنا سب ہو جاتا ہے-
زندگی کی اس دوڑ میں مہنگائی کے
بھونچال میں جب وہ عورت اپنی بیٹی کی ضروریات پوری نہیں کر پارہی ہوتی تو زنا جیسا
گندا اور گھناؤنا کام بھی کر گزرتی ہے - جب بہت زیادہ تھک جاتی ہے تو سوچتی ہے کہ.
کاش وہ نکاح کے رشتے سے آزاد نا ہوئی ہوتی-
اللہ
نے تو عورتوں کو ان کے حقوق تب ہی دے دیے تھے جب آیت میراث نازل ہوئی - جب عورت کا
مہر مرد پر فرض کر دیا گیا - عورت کا مال فقط عورت کا ہے اس کی اجازت کے بغیر اس کا
شوہر بھی اس کو استعمال نہیں کر سکتا- مرد کو صرف سربراہ بنایا گیا لیکن حقوق دونوں
کے مقرر کیے گۓ-
المیہ یہ ہے کہ سب عورتوں کو ان کے اصل حقوق اور فرائض کانہیں پتا -
جب
کوئی بھی فطرت کے بنائے ہوۓ
اصولوں کی خلاف ورضی کرتا ہے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کا ایک نمونہ عورت
مارچ اور میرا جسم میری مرضی کے طور پر سامنے آ چکا ہے - خدارا اپنے حقوق پہچانیں صرف
حق اور سچ کے لیے آواز اٹھائیں- ان ہتھکنڈوں کے پیچھے کا مشن سمجھیں اپنا ایمان خراب
مت کریں- اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلاۓ
آمین
عائشہ
صدیقہ
Comments
Post a Comment