تم مرنا چاہتی ہو
Nayla
Jamshaid
' کیا
کہا ! تم اپنی زندگی سے تنگ آگئ ہو، مرنا چاہتی ہو، کیوں ؟ کیونکہ چیزیں تمہارے مطابق نہیں چل رہیں اس لئے
، جو تم شدت سے چاہتی ہو وہ تمہیں مل نہیں رہا تو تم مرنا چاہتی ہو لوگوں نے تم پر
جینا تنگ کر رکھا ہے تو تمہیں مرنا آسان لگتا
ہے تمہارا نوکری کرنا اور ایک بااعتماد اور کامیاب زندگی گزارنا لوگوں کی نظروں
میں چبھتا ہے تو تم ان چبھتی نظروں سے بچنے کے لئے مرنا چاہتی ہو اپنے کردار پر اٹھنے
والی انگلیوں اور تہمتوں سے گھبرا کر زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہو زندگی میں آنے والے مشکل حالات اور مصیبتوں سے
تھک کر موت کو گلے لگانا چاہتی ہو یا پھر مرنے کی اس خواہش کے پیچھے کسی کے ہاتھوں
ٹھکرائے جانے کا غم ہے۔ تو پھر زرا ایک پل کےلئے سوچو کہ تم جس چیز کو حاصل کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں
کر رہی ہو اس کوشش میں تم اکیلی تو نہیں ہو کوئ تو ہے جو ہر قدم پر تمہاری ہمت
بڑھاتا ہے یاد کرو اس ہاجرہ کو جو صفی اور مروی کے کالے پہاڑوں کے بیچ تن تنہا
زندگی کی بقاء کی جنگ لڑ رہی تھی اس کے پاس تو ہمت بڑھانے والا بھی کوئ نہ تھا تو
کیا اس نے ہار مان لی خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا نہیں اس نے حالات کا
مقابلہ کیا اور آج بھی صفی اور مروی کے وہ پہااڑ اس کی جدوجہد اور ثابت قدمی کی
گواہی دیتے ہیں تو تم کیسے زرا سی ناکامی سے ہمت ہار سکتی ہو تم جو معاشرے کے خوف سے
عملی میدان میں آگے بڑھنے سے ڈرتی ہو تو کیا تم اس باوقار خدیجہ کو بھول گئ ہو جو عرب
کے اس معاشرے میں ایک کامیاب کاروبار کی مالک تھی جس معاشرے پر مرد حکمرانی کرتے
تھے تو کیا اس عظیم خاتون کی جرات کی داستان سے تمہیں کوئ سبق نہیں ملتا تمہیں یاد ہے لوگوں نے تہمتیں تو عائشہ اور
مریم کے کردار پر بھی لگائیں تھیں مگر اس ڈر سے انھوں نے جینا تو نہیں چھوڑا نا وہ ثابت قدم
رہیں اور پھر اللہ نے ان کی پاکیزگی کی گواہی خود دی پھر تمہیں یہ شکایت ہے کہ تم حالات کی گردش سے
تنگ آگئ ہو مصائب کا سامنا کر کر کے تھک
گئ ہو تو کیا تمہاری اس زینب سے کوئ نسبت
نہیں جس کا سارا خاندان ایک ہی دن میں کربلا کے تپتے ہوئے میدان میں اجڑ گیا مگر
اس نے جینا نہیں چھوڑا وہ حالات کے سامنے سیسہ پلائ دیوار کی طرح ڈٹی رہی اس نے موت
کو گلے لگانے کی چاہ نہ کی تم کیا کسی کے ٹھکرا دینے کے سبب دل ہار بیٹھی ہو یاد
کرو اس زلیخا کو جو مصر کی ملکہ تھی اور اپنے غلام یوسف کے ہاتھوں ٹھکرائ گئ تھی
مگر اس نے یوں موت کا انتخاب تو نہیں کیا تھا اپنے لئے تو کیا ان میں سے کسی سے
تمہاری کوئ نسبت نہیں
آخر کیوں خود کو اتنا کمزور
اور کم ہمت خیال کرتی ہو
تم، اتنی کمزور
نہیں ہو تم جتنا تم
نے خود کو سمجھ لیا ہے تم تو
وہ ہو جو ہر دور میں صبر و ہمت کا پیکر رہی ہے وہ تم ہی ہو جس نے مشکل وقت میں بڑے
بڑے پیغمبروں اور رہنماوں کو صبر و ہمت کی تلقین کی ہے تو تم خود کیسے گردش حالات
سے ہار کر موت کی خواہش کر سکتی ہو اٹھو اپنی تمام تر ہمت جمع کرو اور جیو کھل کر
جیو ہر اس انسان کے لئے جو تمہیں مرتا ہوا دیکھنے کی خواہش
رکھتا ہے خود پر سے یہ فرجائیل سٹیکر ہٹا
دو اور ہر مشکل کے آگے ڈٹ جاو کیونکہ وہ تم ہی ہو جس کےلئے اقبال نے کہا ہے '
وجود زن سے ہے
تصویر کائنات میں رنگ۔۔
***************************
Comments
Post a Comment