"تبدیلی کا ارادہ"
از قلم: محمد ارسلان مجدؔدی
رمضان
کا دوسرا عشرہ الحمد لله ہمیں نصیب ہو رہا ہے۔ بابرکت مہینے میں ہم اب بھی بہت ساری
غلطیاں کر رہے ہیں۔ شہر کراچی میں آپ فجر کی نماز کے فورا بعد باہر نکلیں۔ کئی علاقوں
میں آپ کو نوجوان کرکٹ یا دوسری کھیل کھیلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ سورج طلوع ہوتے ہی یہی
نوجوان نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ رات بھر موبائل پر مختلف سرگرمیوں میں مصروف
رہنے والے یہ نوجوان خود کو اپنے بڑوں سے زیادہ عقل مند سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر
تبصرہ اور اخلاقی باتیں کرنے والے اپنے اردگرد قریبی لوگوں سے سماجی تعلق مضبوط نہیں
رکھتے۔ آخر ایسی کیا وجہ ہے ہر دوسرا گھر اس پریشانی سے دوچار ہے۔ والدین اپنے بچوں
سے پریشان نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ ان کو نصیحت کرنے اور ہدایت
کرنے کا حق نہیں دیا جا رہا۔ ایک بناوٹی زندگی رہ گئی ہے کہ لوگوں کے سامنے ہماری عزت
کی جاتی ہے لیکن حقیقت میں ہماری ایک نہیں سنی جاتی۔
اکثر
انہی باتوں سے تنگ آکر والدین اپنی خواہشات ترک کردیتے ہیں۔
روزہ
رکھنا خاص اللہ کے لئے ہوتا ہے، لیکن کئی نوجوان روزہ رکھ کر احسان جتاتے ہیں اور پھر
کوئی بھی کام کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
کئی
والدین تو مایوس پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو درست تربیت نہیں کر پائے اور نہ
ہی مستقبل میں کر پائیں گے۔
میرا
اتنا سوال ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ سادہ اور مشکل وقت میں بگڑے ہوئے ہزاروں لوگوں تک
اللہ کا دین پہنچا کر راہ راست پر لا سکتے ہیں تو ہم اپنے گھر کے چند افراد اور بچوں
کی تربیت کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟
اسلامی
تعلیمات پر عمل کرکے "مسلمان سائنسدانوں اور فلاسفرز" نے دنیا میں انقلاب
برپا کر دیا۔ آج انہی کی تعلیمات کی بدولت ہم جدید ٹیکنالوجی سے واقف ہیں۔
چند
لمحموں کے لیے سوچیں ہم زمین میں چھپے راز ڈھونڈ کر ڈھیروں فوائد حاصل کر رہے ہیں۔
اگر ہم اپنے قریبی لوگوں کے دلوں میں چھپی خوبی کو تلاش کیوں نہیں کرسکتے؟
تربیت
اور تبدیلی ہمارے ذہنوں میں گھر سے ہی شروع ہوتی ہے۔ پھر ہم باہر والوں کو یہ موقع
نہ دیں کہ ہمارے پیارے رشتوں میں زہر گھول دیں اور عادتیں بگاڑ دیں۔
آج
کے زمانے میں علم تیزی سے میسر ہے لیکن عمل کا فقدان ہے۔ وجہ ہم بچپن سے عمل کی عادت
ہی نہیں ڈالتے۔ جیسے ایک بچہ کسی کام کو کرنے پر ضد کر رہا ہو تو آپ لاڈ اور پیار میں
اسے اجازت دے دیتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ عادت بگڑتی ہے اور ہم آپس میں اتفاق کھو دیتے
ہیں۔
مایوسی
سے باہر نکلیں ۔ ذرا سوچیں جنگل کے خونخوار جانور کو انسان پکڑ کر اتنی محنت سے تربیت
کرتا ہے کہ وہ انسانوں کے اشارے سمجھنے لگتا ہے۔ پھر ہم انسان ایک دوسرے کو سمجھانے
سے قاصر کیوں ہیں؟ ساری بات ارادے کی ہے۔ تبدیلی تبھی ممکن ہے جب ہم پختہ ارادہ کریں
گے۔
گھروں
میں سماجی تعلقات پختہ کریں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کو اپنا لیں۔ تبدیلی
اور ارادے، مثبت راستے خود بخود آپ کو روشنی فراہم کریں گے۔
Comments
Post a Comment