رمضان اور وبا
تحریر :اقراء
شوکت
رمضان کریم اللہ تبارک تعالٰی کی طرف سے ہمارے لیے بطور عطیہ نازل ہوا ہے
جس میں بیش بہا رحمتوں و برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔شیاطین کو زندانوں میں قید کر دیا
جاتا ہے۔ماہِ صیام بخششوں کا کرینہ ہے ۔جس میں مسلمان ذکر و فکر ،تسبیح و
تہلیل،تلاوت و نوافل ،صدقہ و خیرات و دیگر ہر قسم کی عبادتوں کا اہتمام کر کے جنت
کے حصول اور رضاۓ
الہی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔رمضان کریم کی آمد سال میں ایک دفعہ ہوتی ہے۔اس ماہ
صیام میں روزے رکھے جاتے ہیں ۔روزہ کے لیے عربی زبان میں ”صوم “ کا لفظ استعمال
کیا گیا ہے اور اسکی جمع ہے صیام جس کے معنی” روکنے“ کے ہیں۔اس ماہ کریم میں
مسلمان اپنے نفس پر قابو رکھ کر صبح صادق
سے لیکر غروب آفتاب تک بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو دیگر گناہ کے افعال سے
روکے رکھتے ہیں۔
روزہ مسلمان پر دو ہجری کو نازل ہوا۔
اللہ تعالٰی نے خود اس کی وضاحت یوں
فرماٸ
ہے
”اے لوگو،جو تم ایمان لائے ہو !تم پر
روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھےتاکہ تم
متقی بنو“۔
رسول اکرم ّ نے بھی روزے کا مقصد بیان
کرتے ہوئے فرمایا ہے
”روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے
،روزہ دار فحش باتیں اور کوئی بیہودہ کام نہ کرے،اگر کوئی شحص گالی گلوچ اور لڑاٸی
جھگڑے پر اتر آۓ
تو صرف اتنا کہہ دے میں روزے سے ہوں“۔
صوم جسم کی زکوٰۃ ہے جیسے مال کی زکوٰۃ
دے کر مال کو پاک کیا جاتا ہے ویسے ہی جسم کی زکوٰۃروزے کی شکل میں دی جاتی ہے اور
بہت سی بیماریوں سے نجات حاصل کی جاتی ہے۔جب ایک مسلمان اللہ رب العزت کی جانب سے
عطا کردہ اشیاۓ
خوردو نوش کے میسر ہونے کے باوجود اپنا آپ کو اللہ تعالٰی کے مقرد کردہ وقت تک
بھوکا پیاسا رکھتا ہے تو اس میں نظم و ضبط اور ایثار جیسی صفات پیدا ہوتی
ہیں۔انسان کو دوسروں کے لیے رزق جیسی نعمت سے محرومی کا احساس ہوتا ہے ۔جو مفلس و
نادار لوگ غربت و تنگدستی کی وجہ سے کئی کئی دن نا فرض کردہ روزوں سے ہوتے ہیں اور
پھر انکے لئے مدد و ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔روزے ہر تنو مند مسلمان پر فرض ہے
۔بیمار و مسافروں کے لیے اس میں گنجائش ہے کہ وہ رمضان کے روزے بعد میں پورے کر
لیں یا فدیہ دے کر اسکا ازالہ کر لیں یعنی فدیہ میں 60مساکین کو ایک روزے کے عوض کھانا کھلایا جاتا
ہے جو خود کھانے سے محروم ہوں۔روزے کو دین نے تو آج سے 1400 سال پہلے زکٰوۃ کہا
تھا لیکن میڈیکل ٹیکنالوجی نے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کینسر جیسی موذی مرض کا
علاج بھوک و پیاس میں پایا۔امریکہ کے بہت
ببڑے بڑے ڈاکٹرز کی ایک ٹیم نے تحقیقات سے یہ چیز ثابت کی کہ انسان اگر سال میں 20
سے 22 دن تک بھوک پیاس میں اور 15 گھنٹے تقریباً ایک دن تک رہے تو اس کے جسم میں
موجود کینسر جیسی مہلک بیماری کا خاتمہ یا
علاج کیا جا سکتا ہے۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ انسان کے جسم میں موجود ٹیومر سلز ( tumor cells)جن
کی metastasis
یعنی وہ آگے پھیلتے رہتے ہیں ایک جسم کے
حصے سے دوسرے تک اور پھر پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں اور انسان کے پورے بدن کو
ناکارہ بنا دیتے ہیں لیکن جب ایک شخص دن میں تقریباً 15 گھنٹے اور سال میں تقریباً
20 دن یا اس سے زائد بھوکا پیاسا رہتا ہے تو یہ ٹیومر سلز خود کو کھانے لگتے ہیں
اور اس سے کینسر کا علاج ممکن ہے ۔یہ ڈاکٹرز چونکہ مسلمان نہ تھے اسلیے انھیں اس
چیز سے آشنائی نہ تھی کہ ہمارے دین اسلام نے آج سے چودہ سال پہلے اس کا حکم دے دیا
تھا لیکن جب ان پر یہ راز افشاں ہوا تو وہ دین اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے۔ رمضان کے مرہونِ منت انسان میں شکر گزاری کا
جذبہ اور زیادہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کو رنگا رنگ کے مشروبات و دیگر اشیاۓ
خوردو نوش جیسی نعمتوں سے نوزا ہے۔
ماہ رمضان کے تین عشرے ہوتے ہیں
پہلا عشرہ باران ِرحمت،دوسرا عشرہ مغفرت اور
تیسرا جہنم سے نجات کا ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت کی جانب سے بارانِ رحمتوں کا نزول
ہوتا ہے انسان کی نیکیوں پر اس کا اجر و ثواب دوگنا کر دیا جاتا ہے۔توبہ کے ابواب
کھول دیے جاتے ہیں اور بخشش کو عام کر دیا جاتا ہےاس ماہ کریم میں پانچ طاق راتیں
ہوتیں ہیں جن میں ایک رات لیلۃ القدر موجودہوتی
ہےوہ رات ہزار راتوں سے افضل ہوتی
ہے اور اس میں مسلمانوں کے سال بھر کے
گناہ معاف کیے جاتے ہیں ۔ماہ صیام میں
مسجدوں کو آباد کیا جاتا ہے پنجگانہ نمازیں مسجدوں میں مرد حضرات ادا کرتے ہیں اور
بعد صلوۃ عشاء تراویح کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے جس میں مسلمان قرات قرآن کرتے
ہیں اور زیادہ تر وقت قیام میں گزارتے ہیں۔اس نماز کا بھی اجر عظیم ہے ۔
اس کے علاوہ زیادہ تر مسلمان اس ماہ
ِبابرکت میں طواف کعبہ کے لیے بھی جاتے ہیں جس میں وہ حرم شریف کی زیارت کے ساتھ
بیش ِبہا دعاٶں
کا اہتمام کرتے ہیں۔
رمضان کریم کے آخری عشرے میں مسلمان
مساجد میں اور گھروں میں اعتکاف کا اہتمام کرتے ہیں جس میں وہ تمام دنیا و اہل
ِخانہ سے کٹ کر اللہ رب العزت کے حضور اپنی عبادات کو خلوص نیت سے پیش کرتے ہیں۔
اس ماہ ِ کریم میں صدقہ و خیرات زیادہ
سے ذیادہ کیا جاتا ہے۔فطرانہ ادا کیا جاتا
ہے جو عیدالفطر سے پہلے پہلے امراء غرباء میں اسلام کی متعین کردہ مقدار میں ادا
کرتے تاکہ غریب مسلمان بھائی بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
عید الفطر رمضان کریم کے اختتام پر
اللہ تبارک تعالٰی کی طرف سے بطورِ تحفہ ایک تہوار ہوتا ہے جس پر مسلمان نئے کپڑے
اور جوتے پہنتے ہیں اور رنگا رنگ کے میٹھے اور مصالحے دار کھانے بناتے ہیں اور
اپنے قرب و جوار و جاننے والوں کے گھر عید ملنے جاتے ہیں۔
رمضان میں جہاں مسلمان اللہ کے احکامات
کی پاسداری کرتے ہیں وہیں دوسری جانب عید کی تیاریاں بھی جوش و خروش سے کرتے ہیں
مرد و خواتیں بازاروں کا رخ کرتے خوبصورت و قیمتی لباس و جوتے اپنے لیے خریدتے ہیں
اور عید کے لیے اشیاۓ
خورد و نوش بھی خریدتے ہیں اور تاجر حضرات اس ماہِ بابرکت میں کافی مہنگائی کر
دیتے ہیں اور کافی منافع اٹھاتے ہیں۔تاجر حضرات کا یہ طریقہ کار ٹھیک نہیں کیونکہ
اس کی وجہ سے متاثر زیادہ تر غرباء و متوسط طبقہ ہوتا ہے اور وہ عید کی خریداری
اپنی مرضی کے مطابق نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ انکی آمدنی اتنی نہیں ہوتی کہ سارے
اہل و اعیال کی ضروریات کو پورا کر سکیں ۔ہونا یہ چاہیے کہ نرخ اتنے رکھیں جائیں
جو ہر ہر عام و خاص کی پہنچ میں ہوں۔
رمضان کریم ہمارے لیے بہت ہی اہمیت و
افادیت کا حامل ہے کیونکہ اس ماہ ِکریم میں نزول ِقرآن ہوا تھا اس کے علاوہ آ پ
آنحضرت ّ کو نبوت سے بھی سرفراز اسی ماہِ
کریم میں کیا گیا تھا ۔
غزوہ بدر بھی اسی ماہ میں لڑی گئی تھی
اور اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو کثیر الاتعداد ہونے کے باوجود کفار کے مقابلے میں
برتری دی اور فتح سے ہمکنار کیا ۔
اور پھر آجاتے ہیں ہمارے ملک اسلامیہ
جمہوریہ پاکستان کی جانب جو اللہ پاک نے ہمیں 27ویں رمضان لیلۃ القدر کو بے پناہ
قربانیوں کے بعد عطا کیا۔
اب آجاتے ہیں دور ِحاضر اور رمضان کی
جانب۔
دور حاضر کا جو رمضان ہے وہ گزشتے
رمضانوں کی طرح نہیں ہے کیونکہ اس دور میں وباء ہے ۔اس وبا کا نام سے آپ بخوبی
آشنا ہوں گےحتی کہ بچہ بچہ واقف ہے اس کے نام سے،
کروناوائرس ہے اس جان لیوا و خطرناک
وبا کا۔
یہ وبا سال 2019کے آخری مہینے دسمبر
میں چائنہ کے دارلحکومت بیجنگ سے سب سے پہلے آئی ،چین اس سے بری طرح متاثر ہوا اور
وہاں شرح اموات بہت زیادہ تھیں ۔ایسے میں چین بہت پریشان تھا کہ یہ کونسی بیماری
ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں اور اس کا علاج کیسے ممکن ہے۔لیکن کچھ سمجھ نہیں آ
رہی تھی چائنہ کو پھر کہا گیا یہ وباء چمگاڈر سے آٸ
ہے اور چائنیز اسے جانور کھاتے ہیں تو ان کو لگی ہے ۔پھر اس کو کروناوائرس کا نام
دیا گیا ۔اس کی علامات میں نزلہ،گلہ خراب ،کھانسی،بخار وغیرہ شامل تھی اور اس کے
لیے (favourable temperature)کم
درجہ حرارت بتایا جا رہا تھاکہ یہ جہاں ٹھنڈ زیادہ ہوتا ہے وہاں موجود ہوتا ہے۔
پھر یہ چائنہ میں تو تھوڑا قابو کر
لیا گیا تھا کہ اچانک ایک ملک سے دوسرے ملک یہاں تک کہ پوری دنیا ہیں پھیل گیا ۔
شروع میں کچھ ملک جو بہت ترقی یافتہ
تھے انھوں نے اسے سنجیدیدگی سے نہ لیا
جیسے کہ اٹلی اور پھر اٹلی میں شرح اموات بہت زیادہ تھی ۔اس کے بعد آج دنیا کا سب
سے بڑا ترقی یافتہ ملک امریکہ جس کا حکم پوری دنیا میں چلتاہے ،جس کو سپر پاور کہا
جاتا ہے اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے سے پہلے نمبر پر مانا جاتا ہے آج سب سے زیادہ اس (pandamic)وبا سے متاثر ہے اور پھر
اٹلی،روس،برطانیہ وغیرہ شامل ہیں ۔
اس وبا کی زد میں پوری دنیا ہےاور اس
قدر ٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ ہونے کے باوجود اس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں
کیا گیا۔اور اس کا علاج احتیاط میں بتایا جاتا ہے مثلاً گھر سے کم سے کم سے نکلا
جاۓ اور اگر انتہائی مجبوری
میں نکلا جاۓ
تو ہاتھوں پر سرجیکل دستانے اور منہ کو ماسک سے ڈھانپ کے نکلا جاۓ،
ہاتھ نہ ملایا جاۓ
،گلے نہ لگا جاۓ
اور ہاتھ بار بار سینیٹائزر اور صابن سے دھوۓ
جائیں۔
اب تک 41,00000سے اوپر لوگ دنیا میں
اس عالمگیر وبا سے متاثر ہوۓ
اور 2,50000سے اوپر لوگ لقمہ اجل بن گئےہیں۔
پوری دنیا میں عجیب سا خوف و ہراس
پھیلا ہوا ہے۔ہر کسی کو بس اپنی ہی پڑی وی ہے کہ کہیں وہ اس موزی وبا کا شکار نہ
ہو جاۓ
۔اگر کوٸ
تکلیف میں ہے تو اس کو بالکل تنہا قرنطینہ میں رکھا جاتا کوئی رشتہ ناتہ نہیں
پوچھتا ملنا تو دور کی بات اس بندے کے ساۓ
سے بھی بچنے کی کوشش کی جاتی ،قیامت کا سا سماں ہے نفسا نفسی کا عالم ہے کل کائنات
میں۔
بہت سے لوگ اس ارمان کو لیکر مر جاتے
ہیں کہ ان کے اہل و اعیال کا آخری دیدار انھیں نصیب ہو جاۓ۔ اور اللہ پاک ایسی موت کسی کو نصیب نہ کرے جس
میں غسل ،کفن اور نماز جنازہ میں لوگ شرکت تک نہ کریں ۔اللہ پاک سب کو اس عبرت ناک
موت سے بچاۓ
(آمین).
تاریخ میں دیکھا جاۓ
تو اس سے پہلے بھی ایسی وبائیں آئیں جنھوں نے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جیسا
کہ 2014 میں ebola virus آیا
تھا لیکن اس وائرس سے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی نہیں ہوٸ
تھی۔ایک بات اور تاریخ میں دیکھی گئی ہے کہ ہر صدی کے بعد کوئی نہ کوئی ایسی وبا آئی
جس کا خمیازہ بنی نوع انسان کو اپنی جانوں کو دے کر دینا پڑا
مثلاً1720 میں تاغون اس سے بڑا جانی نقصان ہوا
تھا،پھر 1820 میںmalaria ،پھر
1920 میں cholera ہیضہ
اور اب 2020 میں یہ کروناوائرس جیسی وبا جس نے لوگوں کی زندگیوں کو عجیب ایک
نفسیاتی دباٶ
میں ڈال دیا،موت اور خوف و ہراس کے ساۓ
لوگوں کے سروں پر ہر وقت منڈلا رہے ہیں
۔دنیا اس وبا کی وجہ سے بہت پیچھے جا چکی ہے 3,4 ماہ سے دنیا لاک ڈاٶن
کا شکار ہے جس سے معاشی، اقتصادی،ترقیاتی غرض ہر لحاظ سے دنیا بحران و پستی کا
شکار ہو چکی ہے ۔سکول،کالج و یونیورسٹیاں بند ہیں۔بازار،مسجد اور یہاں تک حرم شریف
بھی ویران ہے۔اس سے پہلے گزشتہ رمضانوں میں مسجدوں کو آباد کیا جاتا تھا ذکر و
اذکار،تسبیح و تراویح سے مسجدوں کی رونقوں کو چار چاند لگ جاتے تھے لیکن اس ماہ رمضان
میں مسجدیں ویران ہیں۔خانہ کعبہ تک کا طواف موقوف کر دیا گیا ہے ،عمرہ موقوف اور
خانہ کعبہ میں نماز کو بند کر دیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ عبادات گھروں میں کی جائیں
۔بازار ویران ہیں وہ عید کے لیے لوگوں کا جوش و خروش نہیں ہے اور عید کے لیے
خریداریاں نہیں ہو رہی ہیں اور ایک چیز کاروبار اور ملازمتیں و دیگر مزدوریاں بند
ہیں جس کی وجہ سے غرباء و مساکین کو شدید پریشانی کا سامنا ہے وہ بیچارے اپنے بچوں
کا پیٹ تک بھرنے سے قاصر ہیں اور ایسے میں کچھ امیر لوگ غریبوں کو کھانے کے لیے
راشن مہیا کرنے کے لیے خیرات تو دے دیتے ہیں لیکن صد افسوس پھر وہ تصاویر کشی کا
ایک لمبا سلسلہ ،نمودو نمائش اور داد خوہی کے لیے سوشل میڈیا پر تصاویر کی روٹیشن
نے ان ناداروں کو گھروں سے نکلنے اور کسی کی امداد قبول کرنے سے بھی روک لیا ہےاور
ان بیچاروں کو ایک عجیب احساس کمتری میں ڈال دیا ہے ۔ اس وبا کو بعض علماء عذاب
اور بعض آزمائش سے وبستہ کرتے ہیں ۔
بہر حال اگر یہ آزمائش ہے تو اللہ
تعالی ہمیں اس پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرماۓ
اور اگر اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے گناہوں پر ناراضگی کا اظہار ہے تو اللہ پاک
ہمارے حالوں پر رحم کرے،توبہ کی توفیق عطا کرے،صراط ِمستقیم پر چلنے کی توفیق عطا
فرماۓ(
آمین).
بعض اسلامک لوگ اس کو قیامت کی
نشانیوں سے جوڑتے ہیں کیونکہ یہ وبا چائنہ سے آٸ
اور اس کو جاجوج ماجوج کے فتنے سے جوڑا جاتا ہے جاجوج ماجوج دیوار ِچین میں بند
ہیں اور ان کا آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے ۔اور پھر خانہ کعبہ
کا خالی ہو جانا ،حج و عمرہ کا موقوف ہو جانا بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بتائی جاتی ہے ۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ
کی طرف سے چھوڑا گیا وائرس ہے جو انھوں نے چائنہ میں چھوڑا اور پھر جس وقت تک
امریکہ نہیں چاہے گا یہ وائرس نہیں جاۓ
گا،اسکی ویکسین بھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے پاس ہے اور وہ دنیا کی آبادی کو کم
کرنا چاہتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے 2012 میں
ایسی ایک فلم بنائی جس میں ایک عورت اپنی دوست کو ملنے چائنہ جاتی ہے اور پھر اس
کو ایسا کوئی وائرس لگ جاتا ہے جس سے بعد میں اسکی بیٹی بھی متاثر ہوتی ہے اور اس
وائرس کا نام کرونا ہی بتایا گیا تھا ۔اس لحاظ سے کافی سارے لوگوں کا شک امریکہ کی
طرف جاتا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے
بہر حال یہ سب قیاس آرائیاں ہیں لیکن
میری عقل اس چیز کو تسلیم کرنےکو تیار
نہیں ہے کہ امریکہ کی یہ کوئی منصوبہ بندی ہے چونکہ اگر امریکہ ایسا کرتا تو اس کو
اس وائرس کی
pandemic نوعیت کا بھی پتہ ہوتا تو وہ ایسا وائرس
کیوں چھوڑتا جو پوری دنیا کو متاثر کر تا ہو تو پھر اس کو اس چیز کا بھی اندازہ
ہوا ہو گا کہ وہ خود بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔
ماہ رمضان کا مہینہ ہے اللہ تعالٰی کی
طرف سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔اللہ تعالٰی کی رحمت اس کے غضب و قہار پرحاوی ہے
۔میں پر امید ہوں اللہ تبارک تعالٰی اس بابرکت و بخشش کے مہینے کے صدقے اس وبا کو
جڑ سے ختم کرے گا بیشک دنیا کے سارے کام اس کے ایک کن کے منتظر و محتاج ہیں۔
اللہ تعالٰی انشاءاللہ ہم پر رحم کرے گا اور پھر سے ہم اپنی
نارمل زندگیوں کی طرف لوٹیں گے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment