😰خوفناک چہرہ😰
از قلم عثمان شوکت
خواب کا خیال فوراً ہی دماغ میں آ گیا اور میں احتیاط سے کمرے میں داخل ہوا اور ایک چھوٹی سی بچی صوفے پر بیٹھی تھی اور یہ میری جان میری بھتیجی تھی۔ اس وقت آپ کیا دیکھ رہی ہیں محترمہ؟ میں نے کافی حیرانگی سے پوچھا جو اس وقت ایک ڈراونی مووی دیکھ رہی تھی۔ اس نے بھی غصے سے دیکھا جسے کسی مشن پر ہو اور کوئی ڈسٹرب کر دے۔ میں آہستہ سے اس کے پاس گیا اور اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
"horror movie" دیکھ کر ڈر نہیں لگتا آپ کو؟" میں نے ایک بار پھر مخاطب کرنے کی کوشش کی۔ ناک کے نتھنے پھولا کر معصوم سی آواز میں بولی"it's non of your bussines my dear uncle"
(یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے میری عزیز چچا)
اس کے الفاظ سن کر میں حیران ہوا لیکن بے بس ہو کر اس کے ساتھ مل کر وہ مووی دیکھنے لگا۔ ہالی وڈ کی کوئی مووی تھی لیکن اس قدر بھیانک مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ چھوٹی سی بچی کیسے دیکھ رہی ہے۔ اتنے میں امی جان کی آواز آئی"آ کر کھانا کھالو بیٹا اگر آنکھ کھل گئی ہے تو" کھانے کا سنتے ہی مجھے بھوک کا احساس ہوا مین نے فوراً بھتیجی کی طرف دیکھا جو ابھی بھی مصروف نظر آ رہی تھی۔میں نے بھی کافی کوشش کر کے اسے ساتھ چلنے پر راضی کر ہی دیا اور میں نے بھتیجی کو ساتھ لے کر چل پڑا۔
اب ہم کھانا کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے۔ابھی پہلا لقمہ ہی منہ میں ڈالا تھا کہ بجلی چلی گئی "افففف یہ لائٹ والے بھی حد کرتے ہیں" امی کی آواز کانوں سے ٹکرائی اور میں مسکرا کر اٹھا اپنے موبائیل فون کی لائیٹ جلائی اور چارچنگ لائٹ لینے چلا گیا۔باہر آسمان پر سیاہ بادلوں نے گھیرا ڈالا ہوا تھا اور کبھی کبھی اپنے ہونے کا احساس گرج کر دے رہے تھے دروازے سے اندر ہونا ہی تھا کے مجھے ڈر کا احساس ہونے لگا۔ہمت بڑھائی آگے بڑھا لائیٹ ڈھونڈنے میں کافی مشکل ہوئی۔ ابھی لائیٹ جلانے ہے لگا تھا کہ مجھے ایسا لگا کوئی چھپ گیا ہے دروازے کے پیچھے۔ ڈر سے پورا جسم پسینے میں ڈوب گیا تھا۔ میں لرزتے پاوں کے ساتھ آگے بڑھا دروازے سے کچھ فاصلے پر ہی مجھے اس کا چہرہ نظر آ گیا۔ چہرہ دیکھ کر مجھے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ میری چیخ گلے میں پھنس کر رہ گئی تھی۔میرا وجود میری ٹانگوں پر بھاری آگیا اور میں تاب نہ لاتے ہوئے گر گیا۔ اس کے بعد میری آنکھ کھولی تو میں نے خود کو بستر پر پایا۔ سر بھاری ہورہا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہوا کیا اور میں یہاں کیسے آیا۔ اتنے میں دروازہ کھولا۔ دروزے کی آہٹ پر میں نے دروزے کی طرف دیکھا۔ یہ میری فیملی والے تھے سب حیران پریشان مجھے دیکھتے ہوئے آگے آرہے تھے۔ امی جان جلدی سے چل کر پاس آئی اور پیار سے پوچھا "کیا ہوا تھا بیٹا بے ہوش کیوں ہو گئے تھے؟" امی کی بات سنتے ہی مجھے سب یاد آنے لگا مجھے یاد آیا کے کہ میں نے دروازے کی اوٹ میں ایک بھیانک چہرہ دیکھا تھا۔ میں نے سارا قصہ امی کو سنا دیا۔
پھر جو امی کے الفاظ تھے وہ میرے لیے ناقابل برداشت تھے اور میرے لیے یقیں کرنا بھی مشکل تھا۔
امی جان نے بتایا، اس کمرے میں دروازے کی اوٹ میں دریسنگ رکھا ہوا ہے شیشے میں تم نے خود کو دیکھا ہوگا۔یہ سن کر جہاں میں شرمندہ تھا وہاں ہی پوری فیملی قہقے لگا رہی تھی۔
Comments
Post a Comment