غازی ارطغرل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(سچائی اور فکشن)
تحریر۔ولید شوکت۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی کچھ معلومات ہمیں مجموعہ" دستاویزات عثمانی" سے ملتی ہیں۔
ارطغرل۔
ارطغرل ترکی زبان کا لفظ اور دو لفظوں ار اور طغرل سے مل کر بنا ہے۔ار کے معنی آدمی اور طغرل کے معنی عقاب کے ہیں۔اسطرح ارطغرل کے معنی "عقابی شخص"کے ہیں۔ارطغرل کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے
ارطغرل بیگ (یہ لوگ بیگ یعنی سردار کہلاتے تھے) بن سلیمان شاہ بن غندوز الپ بن قایا الپ بن کوک الپ بن صارقوق الپ بن قائی الپ۔(قبیلہ اسی سردار کے نام پہ قائی قبیلہ کہلاتا تھا)۔
ارطغرل بیگ کی تاریخ ولادت 1191 کے آس پاس رہی ہو گی۔یہ ساری عمر سلجوقی سلطنت کے وفادار رہے۔ان کی بہادری اور وفاداری کی وجہ سے سلطان علاؤ الدین کیقباد نے شہر سوغات اور اس سے ملحقہ شہر بطور جاگیر ارطغرل بیگ کو دے دئیے تھے۔یہ بازنطینی سلطنت کی سرحد پہ واقع علاقہ تھا۔آنے والے برسوں میں اس سرحد پہ متعدد واقعات پیش آۓ جو عظیم الشان عثمانی سلطنت کے وجود میں آنے کا سبب بنے جس کی تین بر اعظم یعنی ایشیا،افریقہ اور یورپ پہ حکومت تھی۔ارطغرل کی شادی حلیمہ خاتون سے ہوئی،ان کے بارے صرف یہی مستند ہے کہ یہ عثمان اول کی ماں تھیں،عثمان کے علاوہ ارطغرل اور حلیمہ کے دو بیٹے غندوز الپ اور حاجی بیگ بھی تھے۔حلیمہ خاتون کے باپ کے بارے میں مستند روایات نہی ہیں۔ترک ٹی وی سیریس "ڈیریلش ارطغرل" میں اسری بلجییک کو ،جس نے حلیمہ خاتون کا کردار ادا کیا ہے، سلجوق شہزادی دکھایا گیا ہے۔ارطغرل 1280 میں وفات پا گیا اور سوغات شہر میں دفن ہوا ،اسی شہر میں حلیمہ خاتون کا مقبرہ بھی ہے۔ اس قبیلہ کے دیگر آثار اور قبریں بھی یہیں ملتی ہیں۔قائی قبیلہ اب بھی موجودہ ترکی کے صوبہ بلجیک میں آباد ہے۔خلافت عثمانیہ کے خلفاء کا یہی قبیلہ تھا۔
باقی جو مناظر اور واقعات محمد بوزداع کے تخلیق کردہ اور کمال تقدن فلم کمپنی کے پیش کردہ ڈرامہ سیریس "ڈیریلش ارطغرل" میں پیش کیے گئے ہیں وہ فکشن پہ مبنی ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو،یہ ڈرامہ کہانی،تیاری اور اداکاری کے لحاظ سے بہترین ڈرامہ ہے ۔اس ڈرامہ میں خانہ بدوش قائی قبیلہ بے رحم موسم،منگولوں اور صلیبیوں کے حملوں کے نشانے پہ ہے اور ارطغرل ان سب سے مردانہ وار نبرد آزما ہے۔ ارطغرل کی جوانمردی نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی جوانمردی اور اولعزمی کی یاد تازہ کر دی اور یوں یہ ڈرامہ نوجوان نسل کا مقبول ترین ڈرامہ ٹہرا۔
ڈرامے کے بارے میں۔۔
"ڈیریلش ارطغرل"جمہوریہ ترکی میں سرکاری ٹی وی چینل پہ پیش کیا گیا۔یہ ڈرامہ پانچ سیزن اور 157 اقساط پہ مشتمل نہایت خوبصورت ڈرامہ ہے ۔ہر ایک قسط کا دورانیہ دو گھنٹے پہ محیط ہے۔ یہ 10 دسمبر 2014 سے لے کر 29 مئی 2019 تک ٹی آر ٹی پہ نشر ہوتا رہا۔ترکی کی تاریخ میں ڈرامے کا یہ سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ترکی میں مقبولیت کو مد نظر رکھتے ہوۓ سب سے پہلے اس کا ترجمہ عربی اور انگریزی میں کیا گیا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈیریلش ارطغرل کی مقبولیت نے تمام تر ریکارڈ توڑ دئیے۔پوری دنیا میں اس کے شو کو پانچ سو ارب مرتبہ دیکھا گیا۔قائی پرچم دنیا کے مختلف خطوں میں لہرانے لگا۔ارطغرل کی انگوٹھی تک کے ڈیزائن کو نقل کیا کیا۔ہالی وڈ فلم انڈسٹری کا سحر ختم ہونے لگا ۔ترک مسلم ثقافت اور تہذیب کا چرچا ہونے لگا۔اس بات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مصر نے فتویٰ دے کر اس ڈرامہ کو اپنے ملک میں بند کیا کہ قرون اولیٰ کی ترک مسلم ثقافت وہ اپنے ہاں پنپتے ہوۓ نہی دیکھ سکتے تھے۔اس کے علاوہ یو اے ای میں اس کو بند کیا گیا۔مغربی فلاسفر اس سے خوفزدہ ہیں اور ترکی کے اس ڈرامے کو بغاوت قرار دے رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ڈیریلش ارطغرل سے مسلمانوں کا احساس کمتری کم ہوا ہے۔اور غیر مسلم اس کو دیکھ کر اسلام قبول کر رہے ہیں۔
غازی ارطغرل پاکستان میں۔
اس ڈرامے کا پہلا سیزن 2015 میں پاکستان کے" ہم نیٹ ورک "کے چینل "ہم ستارے" پہ پیش کیا گیا۔یہ ڈرامہ تین دن نشر ہوتا اور اگلے تین دن نشر مکرر کیا جاتا تھا،تاہم اس کو بعد میں بند کر دیا گیا۔اس کا نام "ڈیریلش ارتغرل"ہی تھا۔
25 اپریل 2020 سے پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی پہ اس ڈرامے کو وزیراعظم صاحب کی خواہش پہ دوبارہ اردو ڈبنگ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔اس کو "غازی ارطغرل کا نام دیا گیا۔ پاکستان میں اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر روز اس کی اقساط یو ٹیوب پہ ٹرینڈ کر رہی ہوتی ہیں۔سوشل میڈیا پہ اس کے چرچے ہیں۔اس ڈرامے نے قدیم پی ٹی وی ڈراموں کی یاد تازہ کر دی ہے جب ڈرامہ نشر ہونے پہ سڑکیں خالی ہو جاتی تھیں۔پی ٹی وی کی ٹی آر پیز اور سبسکرائبرز بڑھ رہے ہیں۔آپ مقبولیت کا اندازہ لگائیں کہ ایک مہینے میں چینل نے دس لاکھ سے زیادہ سبسکرائیبرز حاصل کیے ہیں۔مگر بد قسمتی یہ ہے کہ یہ پی ٹی وی کی اپنی روشنی نہی بلکہ مانگے کی ضیاء ہے۔پی ٹی وی کو بھی چاہیے کہ عورتوں کے گھر سے بھاگ کر من پسند شادی کرنے جیسے موضوعات کو چھوڑ کر تاریخی موضوعات پہ ڈرامے بناۓ۔
Comments
Post a Comment