اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ازقلم:- زويہ عباسی


🍃🍂 اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ🍃🍂
 
 🏻{ازقلم:- زويہ عباسی }
 

یہ سردیوں کی فجر کا وقت تھا ہر شے سفيد دھند کی اوڑھنی میں چھپی ہوئی تھی شبنم پتوں پہ موتیوں کی مانند بکھری پڑی تھی چرند پرند اور سب لوگ نیند کی دیوی کہ آغوش میں میٹھی نیند سو رہے تھے کہ بابا ہر روز کی طرح آج بھی کانوں میں رس گھولتی آذانوں سے پہلےہی اٹھ کہ بارگاہ اقدس میں حاضری کے لیئے اتنی ٹھنڈ میں وضو کر رہے تھے۔ وضو کا پانی ان کے چہرے سے کسی آبشار سا ہوتا  ہوئا ان کے گلے تک آرہا تھا  ان کے مضبوط  ہاتھ ٹھنڈ کی وجہ سے کپکپارہے تھے مگر یہ کڑاکے کی ٹھنڈ نے بھی ان کے عزم کو ٹس سے مس نہیں پائی تھی....،انھوں نے وضو کیا سر پہ نماز والی ٹوپی پہنتے میرے بھائیوں کو جگانےکے بعد میرے کمرے کا دروازہ کھول کہ مجھے جگایا تو ان کی شفيق آواز کے ساتھ اک اور آواز  کانوں میں پڑی؛-
        الصلواة خیرٗ مِن نوم
بابا نے کہا ”اٹھو نماز پڑھو“ ... میں نے اثبات میں سر ہلایا بابا کمرے سے چلےگئے ...!
مجھے نرم و ملایم سفید رضائی کی گرمی نے اٹھنےک اجازت نہیں دی یہ سوچ کر میں رضائی کھیچ کر سر تک اوڑھ لی کہ آج سردی ہے کہ پڑھ لونگی نماز....!
مگر کل !؟؟... کل کس نے دیکھا ہے ؟؟
سونے سے پہلے میں نے تکیے کے نیچے پڑا موبائل اٹھاکے بہت سارے مسجز اور نوٹیفکیشنس چیک کیئے اور اسٹیٹس دیکھے
دو ہی منٹ میں نرم بستر پے گرم رضائی اوڑھے پھر سے نیند کے سمندر میں ڈبکیاں کھاتے کھاتے گہری نیند سو گئی...!
کچھ ہی دیر میں مجھے گھبراھٹ محسوس ہونے لگی سانس رک رک کر چلنے لگی اٹک اٹک کے  میں نے کچھ کہنا چاہا تھا مگر خشک حلق سے الفاظوں نے ادا ہونے سے انکار  کر دیا اک عجيب سی تکليف تھی سینے میں جلن سی محسوس ہوئی ایک ایک سیکنڈ میں ہزاروں اذیتیں ہوکر گذر گئیں میرے اندر روح کا پرندہ بے چینی سے پھڑپھڑا رہا تھا...!
شاید اس سے یہ اذیت سہی نہ گئی اور جسم کا کمزور بنجرا توڑ کر پرواز کر چکا تھا...........!
کافی دیر سے رونے کی آوازیں گونج رہیں تھیں جو اب ہچکیوں اور سسکیوں میں بدل گئیں تھیں،کچھ ہی پلوں کی بات تھی مجھے اپنے اوپر پانی کا بہاٶ محسوس ہوا..؛ یہ کیا......! میں تو ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کی وجہ سے نماز چھوڑ چکی تھی تو پھر میرے جسم پے یہ پانی کیوں اُنڈیلا جا رہا تھا ؟؟ یا خدا...! مجھے تو آخری غسل دیا جا رہا تھا...
زمين کی گردش نہ کبھی رکی تھی نہ کسی کے لیئے رکنے والی تھی . سورج سے وداع لینےسےقبل میری ساری آخری رسومات ادا کی جا چکی تھیں۔دوست احباب رشتیدار مجھے مٹی تلے سوتا چھوڑ کر جا چکے تھے۔۔۔۔
میں نے آنکھیں کھولی یہ کیا تھا؟!!!.
 پھولوں والی چادر والا نرم بستر ٹھوس مٹی میں تبدیل ہوچکا تھا، سر سے پاٶں تک سفید رضائی کی جگہ کفن نے لے لی تھی...! ابھی چند لمحے پہلے کمرے کی گرمی جو باعث آرام تھی وہ قبر کی گھٹن میں تبدیل ہو چکی تھی  میں نے اِدھر اُدھر دیکھا میرا نرم تکیہ میرے سرہانے نہیں تھا جس کے بغير مجھے نیند نہیں آتی تھی ...؛ اتنے میں ميرے ہاتھ میں ديا گيا، کیا یہ میرا موبائل تھا؟؟ ....نہیں یہ تو میرا سوال نامہ تھا جس میں دوستوں کے ٹیکسٹ مسجز ، نوٹيفکيشنس اور اسٹیٹس اپڈیٹس نہیں تھے...؛ اگر کچھ تھا تو وہ یہ سوالات تھے؛-
تمہارا رب کون ہے ؟؟
تمہارا دین کونسا ہے؟؟
تمہارا نبی کون ہے ؟؟
نماز پڑھی ؟؟؟، قرآن پڑھا؟؟ روزے رکھے ؟؟،حقوق العباد ميں کیسی تھی پڑوسیوں کا حق ادا کیا؟؟ ضرورتمندوں کی مدد کی ؟؟؟میں نے جو نعمتیں دی تھیں وہ کیسے خرچ کیں ؟؟؟.....
آنکھیں cone shape جوالا مکھی کی صورت اختیار کر چکی تھیں جس کے دونوں طرف سے آنسوں لاوے کی طرح بہہ رہے تھے میرے پاس نہ کوئی جواب تھا نہ کوئی دلیل اور نہ ہی کوئی وکیل تھا.......!!!!!!!
تبھی ایک آواز میرے کانوں کو چھونے لگی...!یہ آواز  ؟؟؟؟؟؟ ہاں یہ تو وہی مہربان آواز تھی ..،بابا کی آواز وہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے ؛-

 وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾ اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲
 زمانے کی قسم.! انسان سراسر خسارے میں ہے...!
میں نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں ندامت کے آنسو  ميرے رخساروں پر تھے میں نیندسے بیدار ہوچکی تھی ... غفلت کی نیند کو چھوڑ کر میں اپنے بستر سے اٹھی اور نمازکے لیئے وضو کیا...!

Comments