Bharama afsana by Nadia Sehar


افسانہ:
بھرم
از قلم نادیہ سحر
یہ ایک گھر کے مناظر ھے جھاں پرچار نفوس کے ھوتے ھوئے بھی بھت خاموشی ھوتی ھیں کہ جیسے اس گھر میں کوئی موجود نہ ھو
حالانکہ گھر میں چار لوگ موجود ھوتے ھیں ان میں سے کسی کی زبان پہ لاالہ الااللہ کا ورد ھوتا ھے اور کوئی استغفار کر رھا ھوتا ھے کوئی اللہ اکبر کی صدائیں لگا رھا ھوتا ھے
اور کوئی درود پاک سے اپنی زبان کو تر کرتا ھے  یہ افطاری کے روح پر مناظر ھوتے ھیں اج تین دن ھو گئے ھیں اس گھر کے افراد کو پانی کے ساتھ سحروافطار کرتے ھوئے لیکن ان کے پاس کھانے کےلیئے کوئی چیز نھیں ھوتی یہ بابے دینو کا گھر ھے جن میں ایک بابا دینو اور ان کی بیگم جبکہ باقی دو بچے ھوتے ھیں
جن میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوتی ہے بابا دینو جو کےبہت خوددار ہوتا ہے جس نے کبھی بھی لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ہوتا وہ صرف اپنے اللہ ہی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور ہر حالت میں اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اللہ تعالی نے بابے دینو کی بیوی کو بھی صابر و شاکر بنایا ہوتا ہے
اور اس کی زبان پر بھی کبھی شکوہ نہیں اتا اس طرح بابےدینو نے اپنے بیٹے اور بیٹی کی بھی یہیں تربیت کی ہوتی ہے کے وہ کبھی بھی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلا ے بلکہ اپنے رب ہی سے مانگے جو سب  کی جولیاں بھرتا ہے اور کسی سے کچھ بھی نہیں کہتا بلکہ وہ اپنے بندے پر احسان در احسان کرتا رہتا ہیں بس
ہم ہی ناشکرے ہیں افطاری میں ابھی کچھ وقت رہتا ہے اور بابا دینو کبھی اپنے گھر والوں کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی اسمان کی طرف نظر اٹھاتا ہے کے اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے اوربابا دینو اپنے بٹیے ریحان سے کہتا ہے بیٹا دیکھو دروازے پر کون ہے
ریحان دروازہ کھولتا ہے اور سامنے ہی ایک صاحب گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے ہیں جیسے ہی ان صاحب کی نظر دروازے پر پڑتی ہے وہ سیدھا ہوتے ہیں اور ریحان سے پوچھتے ہیں کے بیٹا کیا
یہ بابے دینو کا گھر ہے اور ریحان ہاں میں سر ہلاتا ہے جس پر وہ صاحب اپنے ملازم سے سامان اندر لے جانے کو کہتے ہیں جس پر ملازم کچھ سامان بابے دینو کے گھر لے جاتا ہے اور ریحان حیران و پریشان یہ مناظر دیکھتا ہے پھر وہ صاحب افطاری کے لئے ریحان کو کچھ سامان پکڑاتا ہے جس پر ریحان انکار کرتے ہوے کہتا ہے مہربانی فرما کر اپ مجھے اپنا نام تو بتا دے اور یہ سب کس نے بھیجا ہے جس پر وہ شخص مسکراتے ہوے
کہتا ہے میرے نام کو چھوڑو اور یہی سمجھو کہ یہ بابا دینو کی امانت تھیں جو مجھے ادا کرنا تھی اب جائو اور سب کے ساتھ مل کر افطاری کرو اور اپنے باپ سے کہنا کہ میرے لئے دعا کر دے میں اب چلتا ہوں اللہ حافظ
ریحان اللہ حافظ کہتے ہوئے افطاری کا سامان اندر لے جاتا ہے اور سب کچھ باقی گھر والوں کو بتاتا ہے جس پر بابا دینو بےخود ہو کر اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاتا ہے اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے اس شخص کےیئے دعا کرتے کرتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے
جان دے دی ہوئی کہ جان اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یہ ایک سچے مومن کی کہانی ہیں ہمارے اردگرد بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مانگتے ہوئے شرماتے ہیں لیکن ہمیں خود اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ کون اس کا حقدار ہے اور کس کے پاس کیا نہیں ہیں اللہ ہمیں لوگوں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین
*******************
ختم شد

Comments