زندگی کی حقیقت
ازقلم:آمنہ
میں آمنہ ھو میں ایک میڈل کلاس فیملی سے ھوں
بچپن میں ھی امی کو طلاق ہو گئی تھی بس اس لیے ابو کا پیار نہیں ملا ۔نو سال تک میں نانا ابو کے پاس رھی امی کی دوسری شادی ھوگئی تھی تب میں چھ ماہ کی تھی بس پھر امی کی چھوٹی بہن مطلب میری خالہ نے مجھے سنبھالا تھا بس جب ان کی شادی ھوگی تو مجھے سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا بس پھر میں نے بگڑنا شروع کردیا کوئی روکنے والا تو تھا نہیں، بس نانا ابو اپنے کام پر۔
میرے نانا ابو کسان تھے دو مامو تھے میری ایک خالہ ۔۔۔خالہ کی شادی جھہں ھوئی وہ خالہ کے ماموں تھے ان کی بیٹی کی شادی میرے مامو ں کے ساتھ ھوئی تھی وہ بہت چھوٹی سوچ والی تھی اس نے آتے ہی لڑائیاں شروع کردیں، بچپن سے ہی بہت سینسٹو تھی بات بات پر رونا شروع کردیتی تھی۔
پہلے مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ میری امی کون ہیں،ابو کون ہیں۔میں امی کو با جی کہتی تھی۔
امی سب سے بڑی تھیں اس لیے سب امی کو با جی کہتے تھے اور میں بھی ۔۔
پھر مامی نے لڑائیاں کرنی کچھ زیادہ کردیں تو نانا ابو اپنی ساری زمینیں بیچ کر دوسری جگہ چلے گئے مجھے خالہ کے پاس چھوڑ آئے ۔خالہ کی ساس جو خالہ کی مامی بھی تھیں ان کو میرا وہاں رہنا اچھا نہیں لگتا تھا اس لیے اس نے ایک دن کہا چلو میں تم کو تمہاری امی کے پاس چھوڑ آؤں۔
خالو بھی ان کی باتوں میں آگئے اور انہوں نے مل کے مجھے گھر سے نکال دیا جب میں ڈھرانوالا یعنی امی کے پاس آئی تو مجھے جو جو سمجھ آئی تھی سب بتا دیا ایسا اس لیے ہوا تھا کیوں کہ نانا ابو غصے میں گھر تک بیچ آئے تھے ۔نانا ابو نے ان کو گھر سے نکالا ماموں کی ساس نے مجھے ۔
یہاں آنے کے بعد مجھے سب کچھ پتا چلنا شروع ہو گیا کچھ لوگوں نے مجھے بتایا کچھ گھر والوں نے۔ دوسرے بہن بھائی امی کہتے تھے تو ان کی طرف دیکھ کر میں نے بھی امی کہنا شروع کردیا۔
پھر میں نے پڑھنا شروع کردیا ہر موڑ پر زندگی کے مجھے ابو کی بہت کمی محسوس کی اور آج بھی ہے i Miss you papa میں اتنا جانتی ہوں کہ اللہ پاک سب کے امی ابو کو اس کے پاس رکھے۔۔۔۔ اگر میرے امی ابو کو اطلاق لینی تھی تو مجھے پیدا نہ کرتے۔ میرے ابو جو تھے میری امی کے خالہ زاد تھے۔
اس لیے ہم جب رشتےداروں میں شادی وغیرہ میں جاتے تو ملتے ہیں مجھے۔
اطلاق کے بعد امی نے بھی شادی کرلی میرے بارے میں کسی نے نہیں سوچا ۔
آج میری عمر 21 سال ہے میں پرائیویٹ جاب کرتی ہوں، منگنی ہو چکی ہے پر میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔
اب زندگی میں سب ٹھیک ہے پر اج بھی miss u papa انسان کی زندگی رکتی تو نہیں پر ادھوری رہتی ہے۔
زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہو مجھے وہ ملا ہو جو مجھے چاہیے تھا لیکن میں پھر بھی زندگی سے نا خوش نہیں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں ایک شعر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
شکوہ نہیں لب پے تکدر کے مارے
دامن بھی ہمارا ہے آنسو بھی ہمارے ہے
اللہ تعالی سب کو خوش رکھے اور سب کے امی ابو کو ہمیشہ سب کے ساتھ رکھے اور بچوں کو اپنے والدین کی عزت کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
سب بچوں کے لیے میری طرف سے پیغام ہے
" اپنے والدین کی قدر کرو یہ وہ نعمت ہیں جو بار بار نہیں ملتی۔"
اچھا۔۔۔۔خدا حافظ
**************
The End
Comments
Post a Comment