*درد اور دوا* 💔
💘 از قلم نائیلا 💓
*امیدیں* انسان کو خون کے آنسو تب تک رلاتی ہیں جب تک اسکی امیدوں کا محور انسان ہوتا
ہے جو خود بھی اتنا ہی مجبور اور بے بس ہے جتنا کہ امید لگانے والا ۔۔!
امی
آج میں کالج سے لیٹ آوں گی رامین دوپٹہ اوڑھ کر بیگ اٹھاتی اپنی ماں سے گویا ہوٸ
کیوں بیٹا؟ رامین کو اپنی مصروفیات
کی وضاحت دینے سے پہلے ہی امی جان نے سوال کر ڈالا۔۔
کیوں لیٹ آوگی تمہیں تو پتہ بھی
ہے کہ آج تمھاری خالہ تمہارے رشتے کےسلسلہ میں کسی خاتون کوہمارے گھر لا رہی ہیں.
ارے میری امی پہلے مجھے اپنی پڑھاٸ
تو مکمل کر لینے دیں پھر سوچیٸے
گا اس بارے میں.
یہ
کہہ کر رامین اپنی ماں کو سوچ کی گہری منجدھار میں پھنسا چھوڑ کرکالج کے لیے نکل گئی۔
رامین کی امی جلد از جلد اپنی بیٹیوں
کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھی اور کیوں نہ چاہتی ان کی ایک نہیں چار بیٹیاں تھی. اور آخر میں منتوں مرادوں والا ایک
ہی بیٹا. ادھر رامین کو کالج پہنچتے ہی گیٹ پر شگفتہ مل گئی جو رامین کے لیٹ آنے پر
اس کے لتے لینے لگی رامین نے خود پر گزری آپ بیتی
کہہ سناٸ
چلتے چلتے سہیلیاں ہمراہ ہوتی گٸیں
۔ گفتگو مزید بڑھی تو
تمام سہیلیوں نے اپنے اپنے گھر کے حالات ایک جیسے ہی بتائے. اس
گفتگو کو لپیٹتے ہوۓ
سب نےڈیٹ شیٹ کے دیدارکے لٸےلائن
لگا لی کلاسز اٹینڈ کرنے اور اساٸن
منٹس کی فکر میں غلطاں آج کا دن بےحد مصروفیت کے ساتھ تمام ہوا اور چاروں دوستیں تھکی
ہاری گھر وں کو لوٹ آئیں. دن گزرتے رہے اور پیپرز کا آخری دن بھی آن پہنچا آج آخری
پیپر تھا اور وہ پیپرز کے بعد فراغت کےدنوں
میں لاٸف
انجواۓ
کرنے کے فل پلان کے ساتھ گھر میں داخل ہوٸ
یا اللہ تیرا شکر ہے روٹین لاٸف
سے جان چُھٹی اب صبح دیر تک سوٶں
گی ۔۔ اپنی مرضی سے ناشتہ کھانا پینا ہوگا
۔۔ سب رشتہ داروں کے گھر گھوم پھر کر آٶں
گی کیا بات ہے یار ان لمیٹڈ سیر سپاٹے کا تو ابھی موقع ملا ہے۔۔ سب دوستوں سے جا کر
ابھی پلان کرتی ہوں خود سے باتیں کرتی خیالی پلاو بناتی کب کیسے اور کس کس کے گھر کب چکر لگا نا ہے کی
سوچیں بنتی رامین گھر میں داخل ہوٸ
۔ ۔ چھوٹی کو کھانے اور چاۓ
کا کہہ کر کپڑے ہاتھ میں لٸے
واش روم مں گھس گٸ
تازہ دم ہوکر کمرے میں وارد ہوتے ہی چھوٹی نے بم پھوڑا کہ اسکے امی ابو اس کا رشتہ پکا کر چکے ہیں چھان بین
بھی کر چکے ہیں اور لڑکے والوں کو تو وہ تصویر
دیکھتےہی پسند آ گٸی
تھی وہ لوگ تو بس اس کے پیپرز ختم ہو نے کا انتظار کر رہے تھے. رخصتی کی تیاری کر لوبہنا
!!!
رامین نے چھوٹی کی بات سنی تو ہوش
ہی اڑ گئے کھانا چھوڑ تصدیق کے لٸے
امی کی طرف بھاگی انہوں نے بتایا کہ اس اتوار تمھاری منگنی کی رسم ہے لڑکے والوں کو
شادی کی جلدی ہے اس لیے ہم رسم سادگی سے کر
رہیے ہیں
تم اپنی جن دوستوں کو بلانا چاہو
بلا لو. اور دو دن میں اپنا حلیہ درست کر لو
میری بات ہو گئی ہے پارلر والی لڑکی سے.۔
رامین
امی کی بات سن کر ایک دم سکتے میں آگئی سپنوں کا محل چکنا چور ہونے سے بچانے کی خا
طر رامین نے تمام ہمتوں کو جمع کرتے ہوۓ
آخری تیر چھوڑا اور امی جان سے کہا کہ ابھی اتنی جلدی بھی کیا ہے امی جان میری رسم کر نے کی مجھے ابھی مزید پڑ ھنا ہےرامین
کی امی بھی رامین کی امی تھی *ابھی* پر زور دیتے ہوۓ
بولیں ابھی کہاں پورے20 سال بعد کر رہی ہوں. تمہارا
ایم اے مکمل ہو گیا ہے اور کیا لندن
جانا ہےمزید پڑ ھاٸ
کے لٸے
۔۔
بی
بی گھر داری کب سیکھنی ہے سسرالی ادب آداب کس عمر میں سیکھو گی ۔۔ سسرال والے شکل کے
ساتھ ساتھ عقل بھی پرکھتے ہیں بچی میں گھر داری کا سلیقہ نہ ہو تو سسرال والوں کو محض
اچھی شکلیں رام نہیں کر پاتیں ۔۔
اور
ہاں 3 ماہ بعد تمہاری شادی ہے آج سے گھر کا
ناشتہ پانی صفاٸ
ستھراٸ
کھانا پکانا سینا پرونا سب تم ہی کرو گی۔۔
امی کی باتوں نے رامین کے حواس
ہی گم کر دیئے.۔۔ بہر حال ہوا وہ ہی جو امی
نے کہا تھا دو دن کی عیش کے بعد رسم کا دن بھی آن پہنچا حسیب سے زندگی بھر کا بندھن
بندھ گیا حسیب کو دیکھ کر سب ہی رامین کی قسمت پر رشک کرنے لگے. اور کیوں نہ کرتے
4 بہن بھائیوں کا چھوٹا بھائی اور 2 بہن بھا ٸ
شادی شدہ ہیں سب کی چھیڑ چھاڑ میں اور خوش گپیوں میں رسم بھی ہو گئی. رسم کے بعد سے
سب ہی رامین کی شادی کی تیاری کرنے لگے مگر رامین پیا گھر سدھارنے کی تیاری میں لگی
رہی امی جان سب پکوان سکھانے کے ساتھ ساتھ باورچی خانے اور گھر داری کے سب گُر راز
بھی بتا دیٸے
وہ اچھا کھانا تو پہلے بھی بناتی تھی مر اب تو اپنی خواہشوں اور سپنوں کو پس پشت ڈال
کر سب کچھ ہی ذمہ داری سے سیکھا تھا کہ سسرال
میں والدین کی ناک رہ جاۓ۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے شادی کا دن بھی
آگیا اور سب لڑکیوں کی طرح رامین بھی بہت سے ارمان دل میں بساۓ
اور آنکھوں میں خواب سجا ۓ
باپ کی دہلیز پار کر کے پیا کے آنگن میں آ بسی ۔آجولیمہ تھا اور رامین کی دوستوں نے تو یہاں بھی حسیب کا نام لے
کر ناک میں دم کیا ہوا تھا ادھر ہر وقت ہسنے مسکرانے والی رامین 20 سال ماں باپ کے
گھر رانیوں کی طرح رہنے والی اپنے شوہر کے ساتھ رخصت ہو کر ایک ہی دن میں سنجیدگی کا
مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔۔ کیوں کہ اسے سہاگ رات سہاگ رات کم اور نصیحتوں کی رات زیادہ
لگی تھی۔۔
امی آج کیا پکانا ہے یہ رامین تھی جو اپنی ساس سے پکانے کا پوچھ رہی تھی
جب سے شادی ہوٸ
تھی کھانا پکانا رامین کےذمہ تھا۔۔
امی
کے گھر کھانا رامین اپنے حساب سے بناتی تو بہت لذیذ بنتا تھامگر یہاں ان کے حساب سے
سودا سامان ان کے حساب سے مرچ مصالحہ کی مقدار طے تھی کچھ زیادہ نہیں کرنا کچھ کم نہیں
ڈالنا پھر کھانے میں زائقہ کہاں پوہڑ بدسلیقہ اور بد ذاٸقہ
کھانا بنانے والی تو مشہور ہو ہی چکی تھی بد تہذیبی کا خطاب بھی اکثر مل جاتا کیونکہ کوٸ
مشورہ دیتی تو خلاف ادب بات گھر کی سیٹنگ میں
تبدیلی کی بات کرتی تو اپنی حد میں رہنے کی تلقین ۔۔ اداس دل کی حالت شوہر نامدار کے گوش گزارتی تو جواب عامیانہ سا کہ تم اس دنیا
کی انوکھی بہو نہیں ہو برداشت کرنا سیکھو۔۔ دل کا حال ماں کو سنایا تو صبر کرنے کی نصیحت پلے باندھ دی جاتی۔۔ خوب خاطر مدارات
کر کے نند بھاوج (جیٹھانی ) کے دل موہ کر انکو
سفارشی بنانا چاہا کہ ساس اماں اسے کچھ اپنی مرضی کے مطابق کرنے دیں تو مشورہ جھاڑ
دیا جاتا کہ بڑے بوڑھوں کو درست نہیں کیا جا
سکتا خود کو انکی عادات میں ڈھال لینا ہی بہتر ہے۔۔ اور ساس اماں تھی کی رامین سے خوش
ہو کر نہ دے رہی تھیں اگر کبھی غلطی سے صبح دیر سے آنکھ کھلتی تو دن بھر صلواتیں سنتے گزر جاتا اور اب تو وہ امید
سے بھی تھی طبیعت میں نقاہت اوراماں کی طعنہ ترشیوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا
۔
اور
جب کبھی رامین کی امی بیٹی کی خیر خبر لینے آجاتی تو ان کو بھی انہی باتوں کا سامنا
کرنا پڑتاپھر کبھی امی رامین کو کبھی اس کی ساس کو دیکھتی بولتی بھی تو کیا بولتیں
آخر لڑکی کی ماں جو ٹہریں کڑھ کڑھ کے گھر آجاتیں. کبھی کبھی رامین کو لگتا کہ یہ شادی
اور اس کے بعد کی خوشگوار زندگی تو ایک سہانا خواب ہی تھا وہ سب زمہ داریاں جو رامین
نے کبھی اپنے گھر میں نہیں سنبھالی تھی یہاں وہ زمہ داریاں گلے کا ہار بن گٸیں
تھیں. اس پر طرہ یہ کہ زیادہ نہ ہنسو زیادہ
نہ بولو ہر کسی سے فری مت ہو جایاکرو چند خاص لوگوں سے میل ملاپ رکھو جیسے مفت مشورے
روز مل جایا کرتے کہیں آو جاؤ تو ساس کے ساتھ بیٹھنے کی پابندی الگ تھی یہ سب باتیں الگ تھی اور رامین کا مزاج الگ تھا وہ تو آزاد پنچھی تھی ہنسی اس کا گہنا تھا باتونی
اتنی ک بولتی تو کسی کی باری نہ آنے دیتی۔ وہ چند مہینوں میں ہی مرجھا کر رہ گٸی
رامین جب بھی میکے جاتی ماں سے
شکوہ کناں رہتی . امی آپ نے میری شادی کرنے میں بہت جلدی کر دی ۔۔ رامین کی امی کا
ہمیشہ سے یہی جواب ہوتا کہ پیا دیس تو سب کو سدھارنا ہوتا ہی ہے جلد کیا بدیر کیا اور
پھر یہ وقت تو مقدر میں طے تھا اب صبر شکر سے یہ دن گزار لو اللہ ان شاء اللہ بہتر حالات لے آئے گا۔۔ ماں ہمیشہ نصیحتیں
کردیتیں دل پر پڑا بوجھ وہیں رہ جاتا اور وہ تو درد کا مداوا چاہتی تھی کسی مسیحا کی
تلاش میں تھی جو زخموں پر مرہم رکھتا ۔۔۔ جس کے ہونے کے احساس سے دکھ تکلیف اپنی حیثیت
کھو دیں جسکی خلوت میں وہ دنیا بھول جاٸے
اک ایسی ہستی کا ساتھ چاہتی تھی جس کے ہونے سے کسی اور کے ہونے نہ ہونے اسےکوٸ
فرق نہ پڑتا یو مگر ابھی تک آگہی کا در وا نہیں ہو رہا تھا سب کے سامنے دامن پھیلا
کر دیکھ لیا کوٸ
بھی تو درد کا درماں نہ بنا۔۔
پھر ایک دن ماں کے ہاں رامین
کی ملاقات شگفتہ سے ہو گٸی
رامین کی اجڑی صورت دیکھ کر پوچھ بیٹھی کہ کیا روگ لگا تم نے رامین تم تو شادی کے بعد
بالکل بدل گئی رامین اس سے حال دل کہنا نہیں چاہتی تھی کہ اب تک ہر طرف سے سبکی ہی
ہوٸ تھی شگفتہ کے بے حد اصرار پر رامین نے اپنی چیدہ چیدہ
صورت حال بتائ اور شکوہ بھی کر ڈالا کہ کوٸ
میرا پرسان حال نہیں کسی کو میری فکر نہیں کوٸ
میرا درد نہیں بانٹتا ۔۔ شگفتہ نے صورت حال سمجھتے ہوۓ
کہا کیوں در در بھٹکتی رہی تم ؟؟ تم نے اب تک اللہ سے کیوں نہ کہا وہ تمہارا خالق ہے
جو تمہارے حالات سے تم سے بھی زیادہ واقف ہے جو تمہاری تقدیر کے دھاگے بنتا ہے جو ہر
لمحہ ہر آن تمہارے پا س اور تمہارے ساتھ ہے جس کے ہاتھ میں سب گھر والوں کے دل ہیں
اور وہ ذات ان سب کےدل بدلنے پر بھی قادر ہے وہ قادر ہے
وہ
قادر ہے وہ قادر بس یہی لمحہ آگہی تھا وہ
اب تک ان سے مدد مانگتی رہی جو خود اسی کی
طرح کے مجبور انسان تھے اور اللہ۔۔ اللہ تو مجبور نہیں جابر ہے وہ محتاج نہیں حاجت
روا ہے وہ قادر ہے بس اسی لمحے سجدہ ریز ہوٸ
اور اس رحیم کی دہلیز پر اشکوں کا جو سیل رواں ہوا رکنے کانام نہ لیتا تھا جبھی اٹھی
جب دل بے قرار کو قرار ملا جب رحمت خداوندی
کی بوند دل کو سر شار کر گٸی
بے شک اللہ ہی ہے جو ہم کو ستر ماؤں سے زیادہ
چاہنے والا ہے وہی درد کی دوا کرتا ہے اسی
کے ساتھ تو خلوت میں دنیا بھول جاتی ہے ۔۔ اسی کے ہونے کےاحساس سے دکھ درد اپنی حیثیت
کھو دیتے ہیں وہ منتظر رہتا ہے کہ ہم اپنا درد بیاں کریں اور وہ دوا کرے ہم دعا کریں
وہ تقدیر بدل دے ہم اشک بہاٸیں
اور وہ اپنوں کی دل میں محبت ڈال اس لٸے
کہ وہ قادر ہے دل بدلنے قسمت اور وقت بدلنے
پر قادر ہے وہ قادر ہے بس یہی فقرہ زباں پر
جاری رہتا۔۔ اور چند دنوں میں ہی اسکے چہرے کی دونق بحال ہونا شرو ع ہوگٸی
ساس شوہر کا رویہ بدلنے لگا سب اس کا خیال رکھنے لگے اور کیوں نہ رکھتے وہ اس گھر کو
اللہ کے حکم سے وارث دینے والی تھی رامین کا
اللہ سے رابطہ بڑھا تو دنیا کا سکون اور دل تڑپ بڑھنے لگی۔ نماز نہ پڑھتی تو قرار نہ
ملتا تلاوت قرآن سے دل کی بے قراری کو قرارحاصل ہونے لگا رجوع اللہ سے بڑھا تو اللہ
نے بھی اس بندی کو مایوس نہیں کیا رامین کو بھی شدت سے یہ احساس ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ
کے سوا کوئی اپنا نہیں وہ ہماری شہ رگ سے قریب بھی اسی لٸے
ہے کہ اسقدر قریب اور کوٸ
نہیں ہے اسے سب خبر ہے وہ سب جانتا بس اپنے
ہونے کے احساس کو ہمارے لبوں سے سننا چاہتا ہے۔۔
***************************
Do you realize there's a 12 word sentence you can speak to your crush... that will trigger deep feelings of love and instinctual attractiveness for you deep within his chest?
ReplyDeleteThat's because deep inside these 12 words is a "secret signal" that fuels a man's impulse to love, look after and look after you with his entire heart...
12 Words That Trigger A Man's Love Response
This impulse is so built-in to a man's brain that it will drive him to try harder than ever before to take care of you.
In fact, triggering this mighty impulse is so binding to achieving the best possible relationship with your man that as soon as you send your man one of the "Secret Signals"...
...You will soon notice him open his soul and heart to you in a way he haven't expressed before and he'll recognize you as the one and only woman in the world who has ever truly attracted him.