Mula ka azan aur mujahid ki azan aur article by Romana Gondal



ملا کی اذاں اور ،مجاہد کی اذاں اور
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں بیالیس سو چھوٹے بڑے مذاہب موجود ہیں ان کے پیرو کاروں کی تعداد کم ہو یا ذیادہ ، بہرحال یہ ان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ ان کے عقائد اور مذہبی رسومات کا احترام کیا جائے۔ اور اس کے خلاف ذرا سی بات یا عمل لوگوں کو اشتعال دلانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ یہ جذبات اقلیت یا اکثریت کی محتاج نہیں ہوتے۔ اسلام اس وقت دنیا کے بڑے ترین مذاہب میں سے ہے لیکن اسلام ہر کسی کے عقیدے کے احترام کا درس دیتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا ہوتا نہیں ہے شاید دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام سے خوفزدہ ہیں۔ اس لیے اکثر بیشتر دنیا میں اسلام کے خلاف کوئی نہ کوئی پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے ۔ مسلمانوں کے بھی ایمان کی کمزوری ہے کہ وہ اپنے مذہب سے دور ہیں لیکن پھر بھی اپنی مقدس کتاب قرآن پاک کا احترام ہر مسلمان کرتا ہے ۔ چوم کر سینے سے بھی لگایا جاتا ہے ۔ اونچے تاکوں میں بھی سجایا جاتا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ کم لوگ ہی اسے پڑھتے ہیں اور عمل کرنے والوں کی تعداد تو ویسے ہی بہت کم ہے ۔ انفرادی نماز روزہ پھر بھی آسان کام ہے لیکن جہاد کے لیے نکلنا بہت مشکل کام ہے اس لیے اقبال نے فرمایا تھا کہ
              
                           الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن
                           ملا کی ا ذاں اور ، مجاہد کی اذاں اور

ناروے میں نا اعوذباللہ قرآن پاک کی بے حرمتی کی کوشش کی گئی ۔ اس طرح کی کوششِ اسلام دشمنوں کی طرف سے ہر دور میں ہی ہوتی رہی ہیں۔ لیکن ایک مسلم نو جوان میدان میں کود پڑتا ہے ۔ یہ واقعہ انتہائی نا خوشگوار ہے اس پہ جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے لیکن اس نو جوان کی ہمت عالم اسلام کے لیے امید کی کرن ہے کیونکہ اگر ہمیں اسلام پھیلانا ہے اور مسلم عمہ کی حیثیت سے اپنی پہچان بنانی ہے تو ہماری نئی نسل کو اور خاص طور پہ ان مسلمانوں کو جو دوسرے ممالک میں جا رہے ہیں اپنے دین کی سمجھ اور محبت کی بہت ضرورت ہے۔ جو دوسروں کو یہ بتا سکیں کہ وہ اپنے نبی ﷺ اور اپنی کتاب سے محبت کرتے ہیں اور اپنے دین کے لیے جہاد کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ ورنہ آج کے دور میں ایک طرف غیر مسلم اس امر میں سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں کہ اسلام سے نظر یہ جہاد سے مسلمانوں کو نئی نسل کو روشناس نہ ہو نے دیا جائے اور دوسری طرف مسلمانوں کی اکثریت اس ڈر سے بھی اپنے دین سے دور ہوتی جا رہی ہے کہ غیر مسلم انہیں انتہا پسند نہ خیال کریں ۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ اللہ سے بہتر کوئی دوسروں کے دل کا حال نہیں جان سکتا تو جہاں اللہ نے جہاد کا حکم دیا ہے ، جہاد کا سامان تیار کرنے کا حکم دیا ہے تا کہ غیر مسلموں پہ رعب رہے تو اس ڈر سے چپ رہنا کہ وہ ہمیں انتہا پسند خیال نہ کریں ، سر اسر غلط ہے۔


                                             رومانہ گوندل

Comments