Bikharty rishty by Shumaila Malik

"بکھرتے رشتے"
از قلم: شمائلہ ملک
رشتہ،تعلق، ناتہ احساس کسی کے ساتھ جڑے رہنا یا جڑجانے کا نام ہوتاہے۔ جہاں ہربات آتی ہے رشتے کی رشتہ خونی تعلق سے ہی نہیں ہوتا۔ ہماری دوستیاں، ہمدردیاں اپنائیت بھی رشتے کے زمرے میں آتی ہے۔ 
آج کل خونی رشتے ہوں یا احساس کے انکی مدت کم نظر آتی ہے۔ جس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔
ہر انسان اپنی سوچ میں گم ہے اسے دوسرے سے کوئی سرورکار نہیں۔ آج کا انسان بےحس ہوچکاہے۔پہلے یہ دور ہوتا تھا کہ ماں،باپ،بھائی،بہن یا پورا خاندان ایک ہی چھت تلے زندگی گزار دیتے تھے۔ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ ہونے سے بہت سی پریشانیوں سے بچ جاتے تھے۔ بوڑھے ماں،باپ بہت عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔زندگی کا ہر فیصلہ انکی مرضی سے ہوتاتھا۔ لیکن دور حاضر میں انہیں بوجھ سمجھتےہیں۔
ماضی میں گاؤں، محلے اور گلی وغیرہ میں بیٹھک سجائی جاتی تھی۔ جہاں سب مل بیٹھ کر ہر بات ایک دوسرے کو بتا کر مسائل کر تلاش کرنے کے ساتھ تعاون بھی کرتے،یہی وجہ ہےکہ اپنوں اور غیروں کے درمیان الفت پروان چڑھتی تھی۔ 
آج ہماری نئی نسل نے یہ بنیاد رکھ دی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ  گلی محلے میں کسی بھی فرد کے دکھ سکھ میں شریک ہونا قطعی پسند نہیں کرتے۔ اولاد جوان ہوکر شادی کرنے کے بعد الگ گھر بنا لیتے ہیں اور بعض اوقات یہ دیکھنے میں بھی آیا کہ بوڑھے والدین کو اپنے ساتھ رکھنے کےلیے کوئی تیار نہیں ہوتا پھر مجبوراً جائیداد کی طرح ماں باپ کا بوجھ  تقسیم کیا جاتا ہے، ایک بھائی والد کی دیکھ بھال کرے اور دوسرا والدہ کی۔ جبکہ ایک وقت تھا کہ یہی والدین اسی اولاد کو کسی بھی قیمت پر بکھرنے نہیں دیتے تھے اور انکی خوشحالی اور جڑے رہنے کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ 
رشتے بنانا آسان ہے لیکن انہیں جوڑے رکھنا اور بکھرنے سے روکنا کوئی آسان عمل نہیں۔ 
اپنے رشتے کی اہمیت کو پہچانیں اور کوشش کریں اسے بکھرنے نہ دیں۔رشتے جیسے بھی ہوں اہمیت ضرور رکھتے ہیں۔ جیسے ایک استاد کا طالب علم سے، عالم کا دن سے، تاجر کا کاروبار سےاور ڈاکٹر کا اپنے مریض سے رشتے  جتنے بھی مضبوط ہوں جب وہ کمزور پڑنے لگے ان میں سچائی، اپنائیت اور توجہ جیسے ختم ہونے لگے یا کم ہونے لگے تو سمجھو وہ رشتہ کھوکھلا ہوگیا اور ٹوٹنے کے قریب۔۔۔۔۔۔۔ جو چیز ایک بار ٹوٹ جائے اسے جتنا جوڑنے کی کوشش کی جائے اپنی اصل حالت جڑنا آسان نہیں ہوتا۔ رشتوں کی سچائی جب گھروں میں کم ہوتو گھر ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ جیسے تسبیح ٹوٹ جائے تو اس کے دانے بکھر جاتے ہیں اسی طرح گھر کی حالت ہوتی ہے۔جب میاں بیوں  خاص اور عام وجہ سے گھر نہ چلاسکیں تو رشتوں کا توازن نہیں رہتا۔ پھر جب رشتے ٹوٹتے ہیں تو بچے،ماں باپ اور باقی خاندان سب کے سب بکھر جاتے ہیں۔ 
اسی طرح بکھرے ہوئے رشتوں کےلیے زندگی بھی تھوڑا مشکل ہوجاتی ہے۔ آج کل ہم رشتوں کی بات کریں تو ویسے ہم سماجی ہیں۔ ہزاروں لاکھوں ہمارے followers اور friends ہوسکتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے کو چھوڑ کر میلوں دور لوگوں کےلیے ہمارے پاس وقت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک دو سچے رشتے یا  دوست بنانے کی بجاۓ ڈھیروں افراد کا انتخاب کرلیتے ہیں پھر تھوڑے عرصے میں ہم اس بات میں گھر جاتے ہیں کہ ان پر اعتبار کرنا چاہیئے یا نہیں ۔ پھر ہم اصل رشتوں کو چھوڑ کر انہیں توڑ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔ 
تو کرنا یہ ہے رشتے بیشک کم ہوں لیکن آپ جو بھی رشتے ہیں انکا احساس اور قدر کریں۔ تاکہ جڑے ہوئے رشتوں سے خود بھی مطمئن رہیں اور دوسروں کو اعتماد دیں رشتے جوڑنے کا۔

Comments