افسانہ: ادھوری خواہش
تحریر: فیضی جٹ
پارک میں روز کی طرح آج بھی "اعجاز علی" سیر کے
بعد "خاموش اور افسردہ" سے چہرے کے ساتھ لوگوں کی طرف بنچ پر بیٹھے دیکھ
رہا تھا ۔۔شائد وہ اپنی پرانی یادوں میں گم تھا۔۔آج پھر کامران نے پاس سے گزرتے ہوئے
ہر روز کی طرح ایک ہی سوال پوچھا کہ اعجاز علی اگر آپ چاہو تو مجھ سے اپنی باتیں شئیر
کر سکتے ہو ۔۔کیوں کہ کامران بھی اعجاز علی
کا ہم عمر تھا۔۔ اعجاز علی اور کامران ساٹھ سال کے آدمی تھے اور وہ اعجاز علی کو روز
پارک میں دیکھ کر سمجھ سکتا تھا کہ اعجاز علی کسی پریشانی میں مبتلا ہے ۔۔کامران کے
زیادہ ضد کرنے پر آج اعجاز علی نے اپنی زندگی کھول کر اس کے سامنے رکھ دی۔۔اور بتایا
کیسے انہوں نے زندگی میں کامیابی حاصل کی اور اس کے باوجود بھی آج وہ خالی ہاتھ اور
اکیلے رہ گۓ
ہیں ۔۔۔اعجاز علی جوانی سے لے کر اب تک محنت سے کام کیا ۔۔اعجاز علی ایک بہتر ایکٹر
اور رائیٹر بھی تھے انہوں نے اپنی ساری زندگی ایکٹنگ کے نام کر دی ۔۔معروف ہستی بننے
کے بعد اعجاز علی نے اپنی شادی کروا لی اور کچھ ہی عرصہ بعد اللّه نے ان کو دو بیٹوں
سے نوازا ۔۔مگر بیٹی والی خواہش اعجاز علی کی پوری نہ ہو سکی ۔۔۔وقت گزرتا گیا، اعجاز
علی نے اپنے دونوں بیٹوں کو اچھی پرورش دی اور سب سے اچھے اداروں سے تعلیم دلوائی
۔۔۔بڑے بیٹے کی شادی اس سوچ کے ساتھ کی کہ ان کی بیٹی والی کمی بہو کے آنے سے پوری
ہو جاۓ
گی اور ان کی زندگی کا مقصد بھی۔
کیوں کہ اعجاز علی اب کام سے چھٹی لے کر آرام کرنا چاہتا
تھا ۔۔۔مگر کہتے ہیں نا جیسے ہم سوچتے ہیں ویسے نہیں ہوتا۔دنیا کی ہر چیز ہم حاصل نہیں
کر سکتے کہیں نہ کہیں کمی رہ جاتی ہے ۔۔۔اعجاز علی کے ساتھ بھی وہی ہوا تھا ۔۔اعجاز
علی نے اپنی ساری جائیداد اپنے بیٹوں اور بیوی کے نام کر دی اس سوچ کے ساتھ کے اب وہ
گھر رہ کر آرام کریں گے اور اپنے گھر وقت گزارے گے دنیا کی تمام آسائش اولاد کو دے
کر خود خالی ہاتھ گھر بیٹھ گئے۔۔کچھ دن بعد اعجاز علی کے بڑے بیٹے کو اللّه نے بیٹا
دیا اور اعجاز علی کی پوتے والی خوائش بھی پوری ہو گئی۔۔سارا دن اعجاز علی اپنے پوتے
کے ساتھ گزارتا تھا۔ اور اس کی چھوٹی چھوٹی حرکتوں کو دیکھ کر خوش ہوتے اعجاز علی اپنی
زندگی سے بہت خوش تھا۔ مگر اچانک ایک دن اعجاز علی جب سیر سے گھر آیا تو اسے پتہ چلا
اس کی بہو اپنے خاوند سے کسی مسئلے کی وجہ سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے اور
اعجاز علی کے پوتے کو بھی لے گئی ہے ۔۔اعجاز علی کو لگا شائد کچھ دن میں سب ٹھیک ہو
جاۓ۔ مگر آنے والے دنوں میں اور
بھی حالات خراب ہو جائیں گے۔اس کا اندازہ اعجاز علی نے کبھی لگایا بھی نہیں تھا ۔۔بہو
کے گھر چھوڑنے کے بعد اعجاز علی نے پوتے سے ملنے کی بہت کوششیں کیں مگر نا کام رہا
۔۔کچھ ہی دنوں کے بعد اعجاز علی کی بیوی اور ان کے بیٹوں نے اعجاز علی سے رابطہ کم
کرنا شروع کر دیا۔اعجاز علی جب بھی بات کرنا چاہتا۔ بیٹے اور بیوی ان سنی کر کے اپنے
کمروں میں چلے جاتے اور اعجاز علی حیران تھا کہ یہ سب اس کے اپنے اس کے ساتھ کر رہے
تھے ۔۔مگر وہ بعد میں سمجھا کہ کیوں اس کو
اب وہ اہمیت نہیں دیتے ؟؟کیوں اس کے گھر آنے پر سب اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں
اور اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتے ؟؟؟
اعجاز علی اندر ہی اندر بہت ٹوٹ چکا تھا کیوں کہ اس نے اپنی
ہر چیز اولاد کو اور بیوی کو دے دی تاکہ اب اس عمر میں وہ گھر رہ کر آرام کر سکے مگر
وہ نہیں جانتا تھا کہ اہمیت پیسے کی ہوتی ہے انسان کی نہیں ۔۔۔جب سب کو پتہ چلا اعجاز
علی کے پاس کچھ نہیں رہا اور گھر والوں نے بھی اہمیت دینی چھوڑ دی ہے اور اعجاز علی
اب خالی ہاتھ ہو گیا ہے تو دوست احباب بھی
اس لیے ساتھ چھوڑ گئے کہیں اعجاز علی کچھ مانگ نہ لے اولاد نہیں بن سکی۔۔باقی لوگوں
پر کیا شکوہ کرتا ۔۔۔ کبھی وہ وقت تھا اعجاز علی سے ملنے کے لیے لوگ پہلے وقت لیتے
تھے مگر آج شہرت یافتہ انسان اپنا سب کچھ رشتوں پر لٹا کر خود فقیر بن گیا ۔۔یہ وہی
رشتے اور لوگ تھے جن کے لیے اعجاز علی نے دن رات محنت کی تاکہ اس کے اپنے سکون کے ساتھ
زندگی بسر کر سکیں ۔۔باہر سے خوش مزاج نظر آنے والا انسان اندر سے اس قدر ٹوٹا ہوا
تھا کہ اپنے درد کی آہ کو بھی نکلنے نہیں دیا ۔۔کچھ لوگ کہتے ہے کہ ایکٹر کی زندگی
کتنی مزے میں ہوتی ہے یا امیر لوگوں کو تو کوئی فکر نہیں ہوتی مگر یہ سوچ غلط ہے کیوں
کہ ضروری نہیں ہر چیز پیسے کے ساتھ ملتی ہے سب سے اہم چیز رشتے ہوتے ہیں اگر رشتے ہی
نہ رہیں تو پیسے کے ساتھ انسان کب تک سکون ڈھونڈتا رہے گا ۔۔اعجاز علی سے پیسے اور
شہرت کے ساتھ رشتے بھی ساتھ چھوڑ گئے تھے اب تو اعجاز علی کو دیکھنا بھی پسند نہیں
کیا جاتا تھا کیوں کہ اب اعجاز علی کے پاس دینے کے لیے پیار اور وقت کے علاوہ کچھ نہیں
تھا مگر لالچی رشتے کیا سمجھے وقت اور پیار کی اہمیت ؟؟؟اعجاز علی کو اب نوکر بھی نہیں
پوچھتے تھے اور ایک سٹور روم جیسا کمرہ اعجاز علی کو دیا گیا جہاں ضرورت کہ پرانا سامان
پڑا ہوا تھا اعجاز علی حیران اور دکھی ہوا مگر خاموش رہا اور رو رو کر اللّه سے دعا
مانگ رہا تھا ۔۔۔کہ یا اللّه مجھے اس قدر سزا دے دی جس کو برداشت کرنے کے قابل بھی
نہیں ہوں ۔۔۔اعجاز علی کی ساری باتیں سن کر کامران کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں اور
حوصلہ دیتے ہوۓ
کامران نے اعجاز علی کو گلے لگا کر کہا کہ اعجاز اگر تم میرے دفتر میں آجایا کرو تو
وقت بھی اچھا گزر جاۓ
گا اور ضرورت کے لیے پیسے بھی لے لینا اور آنے جانے کی فکر نہ کرنا میں تمہیں لے بھی
آوں گا اور چھوڑ بھی آوں گا ۔۔اعجاز علی پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح کامران کے آگے رو
پڑا بہت کوششوں کے باوجود اپنے جذبات اور آنسوؤں پر قابو نہ پا سکا ۔۔۔ ضروری نہیں
سب ایک جیسے ہی ہوں کیوں کہ کامران بغیر کسی رشتے کے اعجاز علی کا درد بانٹ رہا تھا
کیوں کہ ابھی کہیں نہ کہیں انسانیت زندہ ہے تو جس وجہ سے یہ دنیا قائم ہے کامران کے
دفتر جانے کی وجہ سے اعجاز علی کی تنہائی کم ہو گئی تھی مگر رات واپس آکر پھر وہی درد
تنہائی ان کو گھیر لیتی ۔۔۔اعجاز علی اپنے پوتے کو روز یاد کر کے تنہا بیٹھ کر رویا
کرتے اور کامران سے پوتے کی باتیں کر کے بہت خوش ہوتے ۔۔۔مگر پوتے سے ملنے کی حسرت
دل میں رہ گئی اور اپنوں کی خود غرضی نے اعجاز علی کی جان لے لی۔ اعجاز علی دل میں
درد لیے اور چھوٹی چھوٹی ادھوری خواہش کے ساتھ
اس فانی دنیا کو چھوڑ کر اپنے خدا سے جا ملے ۔۔۔ایسے رشتوں کی وجہ سے پتہ نہیں کتنے
گھروں میں اعجاز علی جیسے لوگ تنہائی اور درد کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ۔۔۔
خدارا اپنوں کی قدر کریں ۔۔پیسے تو آنے جانے والی چیز ہے
مگر ایسے خوبصورت رشتے قسمت سے ملتے ہیں جو بغیر کسی مطلب کے پورے خلوص سے رشتے نبھاتے
ہیں ۔۔۔وہ کہتے ہیں نا وقت ایک جیسا نہیں رہتا آج تمہارا ہے کل کسی اور کا اس لیے اتنا
ظلم کرو جتنا خود برداشت کر سکو کیوں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔۔۔
جزاک اللّه ۔۔۔
۔۔۔
Comments
Post a Comment