” آپٹمسٹ“
ازقلم :- زویہ عباسی...
شفق
اور سلمہ کی دوستی خالص دودھ کی ماندد تھی مگر آج کل خالص دودھ ملتا ہی کہاں ہے؟!ان
دونوں کی سوچ میں انفرادی اختلافات بھی تھے اور اختلاف ہونا تو قدرتی بات ہے آخر پانچھوں
انگلیاں بھی تو برابر نہیں ہوتی ہیں؛ باوجود اس کے وقت کے چرخے نے ان دونوں کو دوستی
کو ایسے مضبوط دھاگے میں بُنا تھا جیسےکسی
ماں نے اپنے بچے کےلیۓ
محبت سے سوئٹر بُنا ہو؛...مگر آج یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ان دونوں کی سوچ کے اختلافات
نے ان کے بیچھ آکر اس سوئٹر کے ہر دھاگے کو اُدھیڑ کے رکھ دیا.!! جب وہ اپنے نٸے
سیمسٹر کے آپشنل سبجیکٹ کے متعلق بحث کر رہیں تھیں..!!
سلمہ:-
شفق ہمیں Social Study ہی پڑھنا چاہیئے۔
شفق:-نہیں
؛ وہ تو ہم نے پچھلے سیمسٹر میں بھی پڑھا ہے..! اور میں نے کورس کَنٹین دیکھ رکھی ہے
وہی رپیٹيڈ ٹاپک ہیں؛ ہمیں اس کی جگہ سندھی ریڈنگ پڑھنا چاہیے، کل میری عائشہ سے بات
ہوئی اور ہم دونوں چاہتے ہیں آپشنل سبجیکٹ میں ہم سندھی ریڈنگ پڑھیں.
سلمہ:-
تمھیں ہو کیا گیا ہے شفق؟؟بے کار کے جھنجھٹ میں کیوں پڑھ رہی ہو؟!
شفق:-بے
کار کے جھنجھٹ؟؟!!! ارے یار ہمیں یہ سبجیکٹ پڑھنے سے بہت سارے فائدے ہیں!.ایک تو ہمیں
سندھی کے حوالے سے بہت ساری انفارميشن ملے گی دوسرا یہ ہمارے کیرئر کے لیئے بھی فائدہ
مند ہے؛ہم اس کے ذریعے ریڈنگ اسپیشلسٹ کے لیئے بھی اپلائے کر سکتے ہیں...
سلمہ:
مجھے رحم آرہا ہے تمہاری سوچ پے تم یہ سب ڈگری حاصل کرنے کے لیئے کر رہی ہو؟!
شفق:
رحم؟! ہا..ہا..ہا..ایک قہقہ حوا میں بلند ہوا...اچھا ٹھیک ہے؛ لیکن اس میں رحم آنے
والی کونسی بات ہے؟!! ميں اگر ڈگری اور مستقبل کے لئے سوچ رہی ہوں تو اس میں برائی
کیا ہے؟ آخر ہم اس سبجیکٹ پر محنت کریں گے
اور تم خود ہی دیکھو ہمیں یہ سبجیکٹ پڑھانے والا بھی کوئی نہیں؛ اگر ہم نے پڑھ لیا
تو دوسروں آسانی ہوگی پھر ان کو یہ سب Face
نہیں کرنا پڑے گا جو ہم کر رہیں ہیں!...اور تم ہی تو کہتی ہوکہ Be
Optimist؛
So
why are you not being optimist Here??!!
سلمہ:-(خاموشی
سے اٹھتے ہوئے)چھوڑو بس جو تمہاری دل میں آئے تم وہ کرو...!
شفق :- مطلب تم میرے ساتھ نہیں
ہو؟؟!!!
سلمہ:-
Iam
quite Optimist about Social Study..
Okay;
as you Wish.. -:شفق
چلو پھر کینٹین چلیں؛ شفق موضوع
بدلتے ہوئے یا پھر آنکھوں میں آئی نمی کو چھپاتے ہوئے اٹھی...
سلمہ:-
ہاں چلو کیا کھاٶ
گی؟؟
کچھ
نہیں،شفق کو کچھ بھی کھانے میں دلچسپی نہیں تھی اس نے تو فقط موضوع بدلنا چاہا جو ان
کی دوستی کے بیچھ میں آرہا تھا...
سلمہ:-ارے
یار موڈ تو اب ٹھیک کرو، انھوں نے چلتے چلتے باتوں کا سلسلہ جاری رکھا، اتنے میں سر
اویس جو کہ ان کی کالیج کے کمپیوٹر ٹیچر تھے ان کی طرف آئے دونوں نے انھیں سلام کیا
اور وہ گرمجوشی سے سلام کا جواب دیتے ہوئے سلمہ سے مخاطب ہوئے :-آپ نے جو سرٹیفکیٹ
کہے تھے وہ تیار ہیں، وہ مجھ سے لے لیجئے گا...
شفق
حیرت زدہ چہرہ سلمہ کی طرف کیئے:- کيسے سرٹیفکیٹ!!!؟؟؟.
سلمہ:-
وه میں نے اپنے اور بھائی کے لئےسر کو DIT
کے سرٹیفکیٹ کہے تھے کیوں کہ بھائی کو ان کی ضرورت تھی میں نے سوچا
میں لگے ہاتھ اپنے لیئے بھی لے لوں!...
شفق
نے اس کے چہرے کو حیرت سے تکتے ہوئے پوچھا
:- پ...پر تم... الفاظ اس کے حلق میں اٹک رہے تھے؛ تم نے تو میرا مطلب تم دونوں نے
کب DIT کی؟؟!...
سلمہ نے شفق کی بات کو نظر انداز کر کے سر اویس کا شکریہ
ادا کرتے ہوئے سرٹیفکیٹس لیئے...
اس
وقت شفق کو لگا جیسے اس کے آس پاس ایٹمی دھماکا ہوا ہو اور ہر تباھ شدہ چیزسے ایک ہی آواز آرہی ہو Be
Optimist be Optimist ...
شفق
خیالوں کے طوفان میں کسی تنکے کی مانند بکھر گئی مگر جلد ہی اس نے خود کو سنبھالتے
ہوئےایک نظر ان جعلی سرٹیفکیٹ پر ڈال کر سلمہ کو مخاطب کیا:-
شکر
ہے میں تمھاری طرح آپٹمسٹ نہیں ہوں!!!.........
*******************
Zaberdast 👍🏻
ReplyDeletegracious post...!
ReplyDeleteVery good Work 👏🏻.
ReplyDeleteBuhat khoob...keep it up!
ReplyDelete