ارادہ کیجئے
رومانہ گوندل
حدیث ہے کہ
اعمال کا درومدار نیتوں پر ہے ۔
اس سے نیت کی اہمیت پتا چلتی ہے ۔ کیونکہ کسی کام کو کرنے کے لیے اورادہ اور نیت بہت اہم ہے ۔ بعض اوقات کام کرنے سے بھی ذیادہ ۔ کیونکہ بہت سے کام ہم کر نہیں پاتے یا ان کی نتا ئج حسبِ تو قع نہیں نکل پاتے۔ ایسے میں بظاہر تو انسان کی کوششیں ضائع ہوتی لگتی ہیں بس انسان کی نیت ہی اس کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے انسان نیت کرے گا اور کوشش کرے گا اس سے اگلا کام کامیابی اور نا کامی انسان کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
دنیا میں کچھ حقیقتیں، چاہے کتنی ہی تلخ ہوں انسان انہ نہیں بدل سکتا جیسے موت۔ جو ہر انسان کو آنی ہے یہ ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے فرار ممکن ہی نہیں با وجود اس کے کہ دنیا کی سب سے تکلیف دہ چیز موت ہی ہے لیکن کچھ خوش قسمت لوگوں کے لیے یہ نعمت بن جاتی ہے جو موت کی تکلیف سے بھی بچا لئے جاتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ کی زندگی کی بشارت بھی مل جاتی ہے ۔ اعلی مقام کے بھی حقدار بن جاتے ہیں ۔ وہ خوش نصیب لوگ شہید کہلاتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ
شہادت اور موت میں فرق کیا ہوتا ہے ؟
صرف ایک جذبے کا ، ایک ارادے کافرق ہے۔ ایسا جذبہ جو موت کو ہمیشہ کی زندگی سے بدل دیتا ہے ۔ وہ جذبہ ہے سپردگی کا ۔ شہید اپنی مرضی سے جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اور اسے ہمیشہ کی زندگی مل جاتی ہے۔ مقام ہمیشہ ان لوگوں کو ملتا ہے جو اپنی مرضی سے خود کو بڑے کام کے لیے پیش کر دیتے ہیں جبکہ ذیادہ تر لوگ یہ کہہ کے زحمت نہیں کرتے کہ وہ نہیں کریں گئے تو کوئی اورر کر دے گا اور وہ خود کو بچاتے رہتے ہیں۔ یہ خیال ہوتا بھی ٹھیک ہے کہ وہ نہیں کرتے تو کو ئی اور کر دیتا ہے ۔ حالانکہ اللہ رب العزت کی ذات با اختیار ہے اسے کسی کام کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ۔ لیکن اس دنیا کا نظام بظاہر انسانوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ۔ اچھے اور برے کام انسانوں کے ہاتھوں سر انجام پاتے ہیں ۔ اللہ تعالی کی دنیا بہت وسیع ہے ۔ وہ کسی انسان سے بھی کام لے لیتے ہیں ۔ جو کام اللہ نے کروانا ہے وہ کروا لیتے ہیں انسان کے پاس بس اتنا اختیار ہوتا ہے کہ وہ خود کو پیش کر دے۔ اگر وہ خود کو پیش نہیں کر ے گا تو وہ کام کوئی اور کر دے گا اور بعض دفعہ بہت چاہا کہ بھی انسان کچھ کام نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کرنے نہ کرنے کا اختیار ہی انسان کے پاس نہیں ہوتا وہ صرف ارادہ کرتا ہے ، نیت دکھاتا ہے۔ خوشی اور نا خوشی سے انسانوں کو آنا ہر حال میں اپنے رب کی طرف ہے ۔ بس یہ فرق ہے کہ خوشی سے آ جانے سے اجر کے حقدار بن جاتے ہیں۔ اس لیے کچھ اچھے کام کرنے کا ارادہ کریں اور اس پہ اس طرح قائم رہیں کہ خود کو اچھے کاموں کے لیے پیش کرنا ہے تا کہ اجر اور درجات پا جائیں۔
*******************
Comments
Post a Comment