Zamana badalta hai rung kese kese by Rana Asad Ali


زمانہ بدلتا ہے رنگ کیسے کیسے
ازقلم .رانا اسد علی
تقریباً آٹھ سال پہلے کی بات ہے کہ علی میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا. فرسٹ ٹائم سکول جاتا اور پھر اپنے والد کے ساتھ جو نجی ہسپتال میں کام کرتے کام کرواتا.ہسپتال میں مختلف قسم کے مریض آتے تھے.
ایک دن ایک لڑکی کو ہسپتال میں لایا گیا جو بے ہوشی کی حالت میں تھی. راحیلہ (جو اس لڑکی کا نام تھا) کے والدین بہت پریشان تھے .ڈاکٹر تنویر صاحب نے جب اس کا چیک اپ کیا تو معلوم ہوا کہ لڑکی نے زہریلی دوا پی لی ہے. اور اس کا اثر ہو رہا تھا .....
تنویر صاحب نے اپنے ڈسپنسریوں کو اس لڑکی کا معدہ واش کرنے کا کہا.. اس دوران لڑکی کو ہوش آیا اور وہ زور زور سے چلانے لگی اور مرنے مرنے کی رٹ لگائی ہوئی تھی
.معدہ واش کرنے کے لیے جب علی اور اس کا ابو گئے تو انہوں نے (NG)ٹیوب لگانے کی کوشش کی اور لڑکی نے بھی بہت زیادہ رونے لگی اور کہنے لگی خدا کے لئے مجھے چھوڑ دیں. میں نہیں جینا چاہتی.علی یہ سب کچھ سن رہا تھا.
ایک طرف راحیلہ کی یہ حالت تھی اور دوسری طرف اس کی لاچاری ماں جو بیٹی کے لیے دعا کر رہی تھی اور ساتھ ہی رور رہی تھی لیکن راحیلہ مرنے کی باتیں کر رہی تھی.. 
خیرراحیلہ کے معدے کو واش کر کے ساری زہر نکال لی گئی. اسکی طعبیت بہتر ہونے لگی. 
ابھی راحیلہ کا علاج جاری تھا کہ اچانک کچھ اور بھی لوگ ایک مریض کو لے آئے جس نے بھی زہریلی دوا پی رکھی تھی .ڈاکٹر صاحب نے اس مریض کو داخل کرتے ہوئے علاج کا کہا.
جب علی اسکا معدہ واش کرنے کے لیے سامان لایا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ یہ لڑکا سعد اسکا کلاس فیلو تھا. اسکاعلاج کیا گیا اور اس کے معدے کو واش کر کے زہر کا اثر ختم کر دیا گیا.
علی اس وقت حیران وپریشان ہوگیا جب علی نے سعد کے ابوسے اس واقعے کےبارے میں دریافت تو انہوں نے بتایا کہ لڑکی سے محبت کرتا ہے اور اسکی منگنی  اور جگہ پر  ہو گئ ہے اور سعد کا رشتہ اس سے پوچھے بغیر طے کر دیا ہے. جس کی وجہ سے یہ سب کچھ کیا سعد کے ابو نے علی سے دعا کرنے کا کہا اور بتایا کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی خوشی کے لیے سب کرنے کو تیار ہوں ..
علی بھی دعا کرتے ہوئے اس کمرے سے باہر نکل آیا. علی کے ابو نے علی کوکہا کہ راحیلہ کی ڈاریپ تبدیل کر دو وہ ڈاریپ لے کر  راحیلہ کو لگانے دوسرے کمرے میں جہاں وہ داخل تھی.
دونوں کو جب ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تو راحیلہ اور سعد نے ایک دوسرے کو دیکھا تو دونوں حیران ہو گئے اور دونوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئی اور انہوں نے اپنے والدین کو بتایا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں .......
دنوں کے والدین یہ دیکھ کر حیران ہو گئے. یہ ان کی پہلی ملاقات تھی. راحیلہ اور سعد کیونکہ آپس میں جینے مرنے کی قسمیں کھا چکے تھے تو انہوں نے اپنے والدین سے کہا ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہےسکتے ...
سعد اور راحیلہ کے والدین نے جو اپنے بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے انہوں نے نہ چاہتے ہوئے دونوں کی خوشی کی خاطر راضی ہو گئے... ..
چونکہ سعد میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا اور راحیلہ 12 کلاس کی سٹوڈنٹ تھی. سعد اور راحیلہ کے امی ابو نے کہا کہ دونوں بچوں کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ان کی شادی کر دیں گے.... 
سعد اور راحیلہ دونوں خوش ہو گئے اور اپنی پڑھائی مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگے.
  خوشی اور مسرت کے عالم اور محبت کو پا لنے کے جذبے کے ساتھ وہاں سے چل دیئے... 
  سعد جب گھر پہنچا تو جس ہی اس کے  جاننے والوں کو پتہ چلاتو عیادت کے لیے آنا شروع ہو گئے جب قریبی دوست عیادت کر کے چلے گئے تو اچانک سعد کی عیادت کے لیے ایک پوری فیملی آئی.سعد ان کو نہیں جانتا تھا ان کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی (راشدہ) بھی تھی .
انہوں نے سعد سے اس کی خیریت دریافت کی. سعد نے جب راشدہ کو دیکھا تو اسکی نظر اسکے چہرے پر ٹیک گئی. اور کچھ دیر تک دیکھتا رہا..
راشدہ کے لیے سعد کے دل میں جذبات پیدا ہو گئے. جیسے جیسے دن گزرتے گئے سعد راشدہ کو چاہنے لگا .اور راحیلہ سے اسکا رابط کم ہوتا گیا .راحیلہ کو امتحان کا کہے کر رابط بہت کم کر لیا.
تین سال بعد ایک مرتبہ پھر راحیلہ کو اسکی والدہ بے ہوشی کی حالت میں اسی ہسپتال لے کر آئیں اس وقت موقع پر ڈاکٹر اور علی موجود تھے. ڈاکٹر صاحب نے فوراً راحیلہ کا بلڈپریشرچیک کرتےہوے اس کو داخل کر لیا اور علی کو جلدی سے ڈریپ لگانے کا کہا.. علی نے فوراً ڈریپ لگائی کچھ دیر بعد راحیلہ کو ہوش آیا تو وہ رونے لگی اور اپنی ماں کو برا بھلا کہنے لگی. 
علی جو ڈسپنسری روم میں تھا شور سن کر جب اندار گیا تو اس نے دیکھا کہ راحیلہ نے ہاتھ سے سوئی نکال دی ہے اور ہاتھ سے خون بہا رہا تھا. راحیلہ کی امی نے علی کو دیکھا اور روتے ہوئے کہا کہ بیٹا اس پاگل لڑکی کو کچھ سمجھو اس لڑکی نے تو مجھے دنیا کا نہیں چھوڑا. اس کو تو نہ ہی اپنی نہ دوسروں کی عزت کا خیال ہے. راحیلہ کی امی نے غصے کا اظہار کیا تو راحیلہ اپنی ماں کے گلے لگ کر یہ کہتے ہوئے رونے لگی کہ امی آپ ہی بتائیں اب میں کیا کروں.
اس کی امی اسکو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا کسی کے پیچھے اپنی زندگی مت برباد کرو. علی جو یہ سب سن رہا تھا اس کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آ رہی تھیں. علی نے راحیلہ کو دوبارہ ڈرایپ لگاتے ہوئے اس کی امی سے اس معاملے کے بارے میں پوچھا...
راحیلہ کی امی نے علی کو ساتھ بیٹھے ہوئے راحیلہ کی اس حالت کے بارے میں بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے بھی اس نے اس کی باتوں میں آکر زہریلی دوا پی لی تھی. علی نے فوراً کہا کہ اس دن میں موجود تھا. اور آپ نے دونوں کا رشتہ طے کر دیا تھا تو اب کیا ہوا ؟
علی کی بات کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ میری ایک ہی بیٹی ہے اور اس نے ایک ایسے لڑکے سے محبت کی ہے جس نے اس کی محبت کا نہ صرف مذاق اڑایا بلکہ اس کی حالت کا ذمہ دار وہی شخص ہے.
راحیلہ کی امی نے سعد کو برا کہتے ہوئے بتایا اور علی کو کہا بیٹا اب اس لڑکی کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن اسکو میری بات سمجھ نہیں آ رہی.
اتنے میں راحیلہ جو بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی. علی کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے بولی کہ بھائی میں نہیں جینا چاہتی اس زندگی کا اب کیا فائدہ جب کوئی مقصد ہی نہیں رہا .علی خاموشی سے یہ سب سن رہا.راحیلہ کی امی نے فوراًکہا کہ بیٹا اسی سنو یہ پھر وہی باتیں کر رہی ہے میں تو تنگ آگئی ہوں اس نے مجھے سب کی نظروں سے گرا دیا ہے.
علی نے دوبار  راحیلہ سے ہمدردی کرتے ہوئے پوچھا کہ اس نے کیوں آپ کی محبت کا مذاق اڑایا ہے وہ تو آپ سے پیار کرتا تھا.
کہانی جاری ہے

Comments