Rudad eid e qurban by Malik Aslam Hamsheera


     رودادِ عید قرباں“
از قلم٠٠٠ملک اسلم ہمشیرا
جونہی عید نماز مکمل ھوٸی اور مولوی صاحب نے خُطبہ شروع کیا تو دورانِ خطبہ ہی اپنے اشارہٕ ابرو سے اپنے مُریدِ خاص ”شبیرے بانگی“ کو کوٸی مخصوص کاشن دیا، چنانچہ شبیرا بجلی کی سی تیزی سے اُٹھا اور اس کے ساتھ ہی مسجد کے کونوں کھدروں میں چُھپے کوٸی نصف درجن طالبِ علم نمودار ھونا شروع ھوگٸے،جنہوں نمازیوں  کے آگے ترپال نما عرفاتی و عربی رومال پھیلا کر جنت کے دروازے کھول دیے،
مولوی صاحب نے جیسے ہی یہ رُوح پرور منظر دیکھا تو  فرطِ جذبات میں آ کر دُعا کو مزید طول دینا شروع کردیا ،ابھی مولوی صاحب کی دعا تقریباً 72% ہی ڈاٶن لوڈ ھوٸی تھی کہ شاگردانِ مدرسہ نے اشاروں کنایوں میں مولوی صاحب کو چندہ کی بابت گرین سگنل دے دیا ،تو مولوی صاحب نے فوراً دعاٸیہ بساط لپیٹ لی،
اس کے بعد  گلے مِلنے کا دور شروع ھوا ،ابھی دو تین دوستوں سے عید ملا ھی تھا کہ وہی ھوا جس کا ڈر تھا، ماسٹر بشیر  خوفناک قسم کے پرفیوم میں نہایا ھوا،گلے میں پڑ گیا،کیونکہ اس کے عطر کی تیز بو سر میں  درد ڈالنے کیلۓ کافی اہم کردار ادا کرتی تھی،چنانچہ سانس روک کر جان بچاٸی٠٠٠٠المختصر ! میں ماسٹر بشیر کو ساتھ لے کر  اپنے قربانی کے جانور کی سمت چل پڑا٠٠٠٠٠قربان گاہ پہنچتے ھی میں نے وَچھے کی حرکات و سکنات سے بھانپ لیا کہ وچھے سرکار کے ارادے نیک نہیں ھیں،لہذا تکبیر و زبح کا نیک فریضہ باقی ممبران کے سپرد کرتے ھوٸے،چھُری ٹوکہ لینے کے بہانے گھر کو چم پت ھو گیا،
کیونکہ پچھلے سال کے واقعات کسی فلم کی طرح میری آنکھوں میں گھوم گٸے،جب  وچھے نے ماسٹر بشیر کو اپنے سینگھوں پر اُٹھا کر پورے برصغیر پاک و ھند کی سیر کرواٸی تھی اور استادِ محترم کی دردناک فریادیں مریخ تک سُنی گٸ تھیں٠٠٠٠
قربان گاہ سے کوسوں دور کھڑے ھوکر حالات کا جاٸزہ لیتا رھا ،جب لوگوں کی اس طرح کی آوازیں جیسے٠٠٠٠” رسی پکڑو،“لت تو بچ،“پوچھڑ پکڑیں، آگے سے ھٹو خون سیدھا آٸے گا“تم کو کہا بھی تھا کہ یہ لَت مارے گا٠٠٠٠ھُن آرام ای؟٠٠٠٠٠٠طرح کی آوازیں دم توڑ گٸیں تب میں نے بھی قربان گاہ کا رُخ کیا٠٠٠٠٠٠
توقع کے عین مطابق وچھا اب ٹھنڈا ھوچکا تھا اور تمام ممبران حصے بخرے کرنے میں مشغول تھے ،میں بھی تلوار سونت کر میدان میں آگیا، میں اور ماسٹر بشیر نے ایک ران اپنے قبضے میں کر لی اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو بروٸے کار لاتے ھوٸے  بوٹیاں بنانے میں جُت گٸے،کہ اچانک ماسٹر بشیر کی کربناک چیخ نے پورا عرش ھلا دیا کیونکہ میری چُھری نے گوشت سے منہ پھیر کر فرطِ عقیدت میں آ کر استادِ محترم کے ھاتھوں کو چوم لیا تھا٠٠٠٠
ابا حضور بھی وھاں موجود تھے چنانچہ انھوں عید کے روز اپنا مافی الضمیر بذریعہ “کَنے چھیک“ پیش کرنے سے گریز کیا اور سزا کے طور پر وچھے کی اُوجھری دھونے کا عظیم فریضہ ھمیں سونپ دیا،
جان پر کھیل کر ھم اُوجھری کو کھالے کی منڈیر تک گھسیٹ لاٸے،پھر تین گھنٹے تک اوجھری کی ساتھ ھماری آنکھ مچولی جاری رھی،کبھی اوجھری کھالے کر اندر تو کبھی ھم کھالے کے اندر٠٠٠٠٠٠٠٠
شام ھو رھی تھی اچانک حافظ فرید کا فون آیا کہ مدرسے کو آٹھ کھالیں بطور عطیہ ملی ھیں ،اور یہ بھی سُنا کہ ھے سیکورٹی ادارے قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے والے مولویوں کی کھالیں کھینچ رھے ھیں سو آپ ھمارے ساتھ جا کر کھالوں کی شفاف تجارت کو ممکن بناٸیں٠٠٠٠آخر کار ایک پَھٹہ رکشے والے سے کرایہ طے ھونے لگا 1200روپے کرایہ طے ھوا،چنانچہ 8عدد کھالوں  کو لے کر ھمارا تجارتی قافلہ اوچشریف کےلیے روانہ ھوا،
اوچشریف الشمس چوک پر واقع اکلوتے چمڑے کے بیوپاری کی دربار میں حاضر ھوٸے اور فی کس کھال کا ریٹ پوچھا تو ھمارے کانوں میں بانسریاں بجنے لگیں،فی کھال 80 اور  120روپے تک٠٠٠٠٠میں نے حساب لگایا تو تقریباً کھالیں بیچ کر بھی٠٠٠٠کرایہ کی مد میں 250روپے ”پَلوں“ادا کرنے پڑتے تھے٠٠٠٠٠مولوی فریدصاحب ریٹ سُن کر اللہ تعالی کے حضور اپنے گناھوں کی معافی مانگنے مسجد کی طرف رواں دواں ھوگٸے٠٠٠٠٠
پھر بندہ ناچیز نے رکشے والے کو وہ نایاب کھالیں سونپتے ھوٸے کسی اور بیوپاری سے بات چیت کرنے کے بہانے وھاں سے کھسک گیا٠٠٠٠٠کیونکہ”ڈیڑھ آنے کی کُتی٠٠٠٠٠ڈھاٸی آنے گھیلاٸی “والا محاورا صادق آ رھا تھا٠٠٠٠٠
**********************
،

Comments