تحریر "اک وہ ہستی "
آمنہ زینب
چند
دن قبل ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں ایک اولڈ ایچ ہوں کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا،میرا
تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جہاں بزرگوں کو رحمت تصور کیا جاتا ہے ۔ان کی موجودگی
باعث رحمت وبرکت ہوتی ہے ان کے ہونے سے گھر میں رونق ہوتی ہے۔ان کا سایہ شفقت
مصائب کو ٹالنے کا سبب ہوتا ہے بزرگ ہی گھرکی رونق ہیں ۔لیکن اس دن اولڈ ایج ہوم
میں کئی سسکتی زندگیوں کو دیکھا،کئی نم منتظر آنکھوں کو دیکھا جو اپنے اپنوں کی
منتظر تھیں ۔اس دن مجھے ان کی اولاد کی بدبختی کا احساس ہوا ،وہاں لوگ تو بےشمار
تھے لیکن خاموشی مجھے کاٹ رہی تھی۔ایک عورت کو دیکھا جواپنوں کی تو منتظر تھی لیکن
لفظوں میں بیان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسی وقت احساس ہوا بدقسمت آس لگانے والے
نہیں،بلکہ یہاں ان کو تنہاہ چھوڑ جانے والے ہیں ایک ماں کی تڑپ بول اٹھی ،"دس
سال پورے دس سال ہونے کو ہیں ۔۔۔۔یہاں تنہاہ مسکراتی ہوں روتی بھی ہوں،میرے تین
بچے ہیں ۔۔۔۔۔تینوں کو دن رات محنت کر کے پڑھایا لکھایا لیکن کوئی فائدہ نہیں
،بیٹے امریکہ میں اور بیٹی دبئی میں مصروف اپنی اپنی زندگی میں شاید وہ بھول گئے
ہیں ان کو پیدا کرنے والے ابھی زندہ ہیں ان کی ایک جھلک کے منتظر ہیں "
یہ
وہ بزرگ تھےجن کی اولادیں تو ہیں لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ،کوئی احساس
نہیں ۔۔۔۔۔۔بیٹی اور بیٹا بھی ہے لیکن اپنی جنت کو دیکھنے کوئی نہیں آتا ،ایک ماں
جب بچوں کی پرورش کرتی ہے لیکن پرورش میں تو نہیں شامل ہوتا کے خود مختار ہی اپنے
اپنے والدین کو خیر باد کہہ دینا۔
ماں
باپ تو نہیں بچوں کو یہ سکھاتے بالغ ہوتے ہیں یوں والدین کو لاوارث چھوڑ
جانا۔۔۔۔۔پھر کیوں بچے ماں باپ کو چھوڑ جاتے ہیں ۔
آج
کے جدید دور اور ترقی یافتہ دورمیں ہر انسان اپنی زندگی میں اتنا بزی ہو گیا ہے کے
پیدا کرنے والوں کو ہی بھولنا جارہا ہے ۔مغربی تہذیب چاہےجتنی بھی ترقی کر لے لیکن
ہم مسلمان کیسے اپنی اسلامی تعلیمات کو بھولتا جا رہیں ہیں ۔اسلام میں ماں کا درجہ
کیا ہے اسلام نے ایک باپ کو کیا رتبہ دیا ہے ۔ سب جانتے ہوئے بھی ہم مسلمان
نظراندز کرتے جا رہیں ہیں ۔آج ترقی یافتہ دورکی دوڑ میں حصے دار تو بن رہیں
ہیں،لیکن ہم اپنی آخرت کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی کیلئے بھی کبھی نا حل ہونے والی
مشکلات کو جنم دے رہیں ہیں ۔
********************
Comments
Post a Comment