Saat pardon mein afsana by Nimra Maheen


"سات پردوں میں"

نمرا ماہین
"عا ئشہ تمھیں ابو بلا رھے ہیں"حیاء عائشہ سے مخاطب ہوتے ہوئے.."اچھا میں دیکھتی ہوں"
 نازک سی چال, سیاھ لمبے بال,گوری رنگت کی حامل ,معصوم سی عائشہ نے دھیمے سے لہجے میں کہا...
"جی ابو آپ نے بلایا...؟"
 "بیٹا آپ کے کمرے کا پنکھا خراب ہوگیا ہے؟ حیاء بتا رھی تھی" "جی ابو" عائشہ نے کہا.. چوھدری صاحب نے شفقت بھرا ہاتھ عائشہ کے سر پر رکھتے ہوے کہا.. ." بیٹا میں ابھی نیا پنکھا لگواتا ہوں" یہ کہہ کر چوھدری صاحب حویلی سے باھر چلے گئے...
عائشہ چوھدری صاحب کی سب سے بڑی بیٹی تھی...ویسے تو چوھدری صاحب کی چار بیٹیاں تھیں پر اس بات کا عِلم گاؤں میں کافی کم لوگوں کو تھا کیونکہ چو ھدری نے اپنی بیٹیوں کو سات پردوں میں رکھا ہوا تھا...چوھدری صاحب کی پورے گاؤں میں بڑی عزّت تھی...
محلّے کے کونے میں ہی خان صاحب نے عامر کو کافی بڑی الیکڑونکس کی دکان کھول کے دی ہوی تھی...پڑھنے لکھنے کا زیادہ شوق نہیں تھا اس لئے میڑک میں 2 دفعہ فیل ہونے کے بعد بمشکل میڑک کا امتحان پاس کر ہی لیا....خان صاحب کے دو ہی بیٹے تھے بڑے بیٹے ارسل کی شادی کے بعد ارسل کی تعلیم اچھی ہونے کی وجہ سے اُسے اچھی جگہ نوکری مل گئ..
چوھدری صاحب نے عامر کی دکان کا جائزہ لیتے ہوے اسے کہا.. "میری حویلی کے کمرے کا پنکھا خراب ہو گیا ہے میں زرا کام سے جا رھا ہوں تم ملازم کے ساتھ جا کر پنکھا لگا دو" عامر نے انکی بات پر سر ہِلاتے ہوے "جی" کہا....
کچھ وقت گزرنے کے بعد عامر اپنا سامان ہاتھ میں لئے ملازم کے ساتھ حویلی کی جانب چل پڑا....
جیسے ہی عامر پنکھا فِٹ کر کے کمرے سے باہر نکلنے لگا اُسکی نظر سامنے کھڑی عائشہ پہ پڑی جو مسلسل اسے گُھورے جا رہی تھی... عامر نے ہلکی سی مسکراہٹ اپنے چہرے پر بکھیری اور عائشہ اُسے دیکھتی رہ گئ... انتہائ خوبصورت حسین لڑکا... بلکل ویسا ہی جیسا اس نے کہانیوں میں پڑھا تھا..وہ عامر کے خیال میں اس قدر کھو گئ کہ اسے پتا ہی نا چلا کب عامر حویلی سے باہر چلا گیا...
"عائشہ" حیاء نے کھوئ ہوی عائشہ کو ہلایا اور دونو کمرے کی جانب چل پڑی....
چوھدری اپنی بیٹیوں کو اتنا ہی پڑھاتا جس سے انھیں اٹھنے, بیٹھنے اور بولنے کی تمیز آجاتی... عائشہ کو بھی پانچ جماعتیں کروا کے گھر بیٹھا لیا جبکہ عائشہ کافی ذھین بچی ہوا کرتی تھی...عائشہ اپنا زیادہ تر وقت ناول یا کہانیاں پڑھنے میں گزارتی تھی چوھدری صاحب کی لاڈلی بیٹی تھی اس لئے انہوں نے کبھی عائشہ کی کسی بات سے انکار نہیں کیا تھا البتہ عائشہ اپنے ماموں کے بیٹے حیدر کے ساتھ بچپن سے مانگی ہوئ تھی...حیدر کی تعلیم مکمل ہوتے ہی عائشہ کے ماموں جان نے حیدر اور عائشہ کی شادی کی بات شروع کر دی... حیدر نے عائشہ کو بچپن میں ہی دیکھا تھا جب شادی کی بات پکّی ہوئ تو حیدر نے عائشہ کی تصویر دیکھی. وہ حیدر جو بچپن ہی سے عائشہ کے خواب دیکھتا تھا اس کی تصویر دیکھتے ہی اسکا دیوانا ہوگیا دن رات اسکی تصویر سے باتیں کرتا جبکہ عائشہ اس بات سے بلکل بے خبر تھی..
 ..عائشہ بہت سنجیدہ لڑکی تھی جبکہ حیاء بہت ہی شوخ اور چنچل سی لڑکی جو اپنی بڑی بہن کو حیدر کا نام لے لے کر چھڑتی لیکن عائشہ ہمیشہ کی طرح اسے دانٹ کے رکھ دیتی اور اب تو عائشہ کی حیدر کے نام پر زیادہ ہی غصہ آنے لگا تھا کیونکہ اب تو وہ صرف عامر کے خیالوں میں گم رہتی تھی...
ملازم حسبِ معمول آج بھی عائشہ بی بی کے لئے ڈائجسٹ لے کر آیا. حقیقت کی دنیا سے بے خبر عائشہ ناول اور افسانوں کی زندگی کو ہی سچ تصوّر کرنے لگی اُسی روز جب اس نے ڈائجسٹ پڑھنے کے لئے کھولا تو عامر کا حسین چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے آگیا اور نا جانے کیا کیا سوچ کر مسکرانے لگی...
 اسکا دھیان ہر وقت صرف عامر کے خیالوں میں ڈوبہ رہتا...وہ کیسے بھی کر کے ایک بار عامر سے ملنا چاہتی تھی اس سے بات کرنا چاھتی اسے بتانا چاہتی تھی کہ عامر کی ایک نظر نے اس پر کس قدر جادو کر دیا ہے...کافی سوچنے کے بعد آخر کار عائشہ کے ذہن میں خیال آ ہی گیا اس نے سوچا وہ ملازم سے کہہ کر عامر تک اپنا پیغام بھیجے گی وہ جانتی تھی ملازم کسی کو نہیں بتائے گا کیونکہ بچپن سے ہی انکے گھر میں کام کرتا تھا اور عائشہ کی بھی ہر بات مانتا تھا...
خیر عائشہ نے ہمت باندھی اور عامر کو خط لکھ کر ملازم کے حوالے کیا..ملازم عائشہ کی بہت عزت کرتا تھا اسلئے عائشہ کی بات نہ ٹالی اور بِنا کوئ سوال کیے عامر کی دکان پر جا کر عامر کو خط دیتے ہوئے کہا
 " یہ عائشہ بی بی نے بھیجا ہے آپکے لئے"عامر نے خط کھولا جس میں لکھا تھا " میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں اگر مناسب لگےتو رات آٹھ بجے آپ کا انتظار کروں گی.
امید ہے آپ ضرور آئیںگے۔ عائشہ"
رات کےآٹھ بج چکے تھے عائشہ کے صبر کی انتہا نہ رہی، اتنے میں ملازم آیا اور کہنے لگا "بی بی جی عامر صاحب آئے ہیں"
عائشہ کے لبوں پہ گہری مسکراہٹ بکھری اور اس نے عامر کو بیٹھک میں آنے کا کہا۔ چوھدری صاحب اس معاملے میں نہایت سخت آدمی تھے۔ اس لیے عائشہ تھوڑی ڈری اور سہمی ہوئی تھی۔ ملازم کمرے سے باہر کھڑا رکھوالی کرتا رہا اور چوھدری صاحب کے رعب کی وجہ سے بہت گھبرایا ہوا تھا۔
دو منٹ کی خاموشی کے بعد عائشہ نے بولنا شروع کر دیا
" میں نہیں جانتی آپ کا نام کیا ہے۔ بس اتنا کہنا ہے میں نے جب سے آپ کو دیکھا ہے آپ کا خیال ذہن سے نہیں جاتا اور آپ سے بات کیے بغیر رہ نہیں سکتی"۔
عامر نے مسکراتے ہوئے کہا "محترمہ میرا نام عامر ہے"۔ عامر کافی حسین لڑکا تھا۔ اس سے پہلے بھی کافی لڑکیاں ایسا کہہ چکی تھیں اس لیے اسے عائشہ کی بات کچھ خاص نہیں لگ رہی تھی۔ اس نے عائشہ کو اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے عائشہ کی بات سن کر چلا گیا۔
عائشہ کو یہ بات اور بھی بے چین کر گئی۔
اگلے ہی دن عائشہ کے ماموں، مامی اور ان کی اکلوتی بیٹی زوبیہ عائشہ اور حیدر کی شادی کی تاریخ کے لیے انکے گھر آ پہنچے۔
 زوبیہ عائشہ کی بہت اچھی اور بچپن کی دوست تھی۔ عائشہ کے چہرے سے پریشانی کے آثار صاف ظاہر ہو رہے تھے۔ زوبیہ خوش تھی کہ عائشہ اس کی اتنی اچھی دوست اس کی بھابھی بننے جا رہی ہے لیکن جب اس نے عائشہ کے چہرے پر اس قدر اداسی دیکھی تو پوچھنے لگی کیا بات ہے عائشہ؟ کیا تم اس شادی سے خوش نہیں ہو؟
عائشہ بہت ہی سیدھی سادی
اسنے بِنا کچھ سوچے سمجھے زوبیہ کو ساری بات بتا دی۔
 زوبیہ کافی حد تک سمجھدار اور عائشہ کو اچھی طرح جانتی تھی اس لیئے اس نے اپنے گھر والوں اور حیدر کو یہ بات بتانے کی بجائے عائشہ کو سمجھانا ضروری سمجھا۔
زوبیہ نے عائشہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔
 "دیکھو عائشہ تم اپنے ابا کا مان ہو اور ان کی عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اپنے ابا کا مان مت توڑنا اور ان کی عزت قائم رکھنے کی کوشش کرو۔ میرا کام ہے تمہیں سمجھانا آگے تمہاری مرضی"
یہ کہ کر زوبیہ کمرے سے باہر چلی گئی اور عائشہ سوچوں میں گم ہو گئی۔
 عائشہ کے دل و دماغ میں صرف عامر کا بھوت سوار تھا اور کچھ ناولز میں بتائی گئی محبت... اسے لگتا تھا حقیقت بھی یہی ہے جو افسانوں اور کہانیوں میں بیان کی جاتی ہے۔
عامر عائشہ سے محبت تو نہ کرتا تھا البتہ باقی لڑکیوں کی طرح عائشہ کے ساتھ ٹائم ضرور پاس کرنا چاہتا تھا۔
 کچھ روز گزر چکے تھے ایک روز ملازم جب ناول لے کر عائشہ کے کمرے میں آیا تو ساتھ ایک خط دیا اور بتایا کہ یہ عامر نے دیا ہے۔ عائشہ فوراً اٹھی اور مسکراتے ہوئے خط پکڑا اور ملازم کو جانے کا کہا ساتھ ہی کسی کو نہ بتانے کی تلقین کی۔ عائشہ نے خط کھولا جس میں لکھا تھا "عائشہ! میں تمہاری زلف کا اسیر ہوگیا ہوں جب سے تمہیں دیکھا ہے تم سے ملاقات کی ہے... کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ہر جگہ تمہارا ہی وجود محسوس ہوتا ہے۔بس اب نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر... کچھ بھی کر کے میری ہو جاؤ۔ تمہارا عامر"۔
 یہ سنتے ہی عائشہ خوشی سے پاگل ہونے لگی اور اس نے پھر عامر کو ملنے کا فیصلہ کیا۔ عائشہ اور عامر کی ملاقات روز کا معمول بن گیا۔ رات کی تاریکی میں جب سب گھر والے سو جاتے عامر بیٹھک میں آیا کرتا اور گھنٹوں باتیں ہوتیں۔
 ایک روز حیاء نے عائشہ کو بیٹھک کی طرف جاتے دیکھا تو اس کے پیچھے چل پڑی جب اس نے عامر کو وہاں دیکھا تو حیران اور پریشان رہ گئی۔ حیاء اپنے ابا کے روعب اور غصہ کو اچھی طرح جانتی تھی اس لیے اس نے صبح اٹھتے ہی سارا ماجرا اپنی اماں کے سامنے بیان کیا۔ زینب بی بی چوہدری صاحب سے بہت ڈرتی تھی اور وہ جانتی تھی کہ چوہدری صاحب کو اس بات کا ذرا بھی علم ہو گیا تو عائشہ کے ساتھ ساتھ اسے بھی جان سے مار ڈالیں گے۔ اس لیے انہوں نے عائشہ کو سمجھانا شروع کیا۔
 "بیٹا عائشہ! تم یہ کیا کام کر رہی ہو تمہارے ابّا کو پتہ چل گیا تو وہ تمہیں بھی جان سے مار دیں گے اور مجھے بھی۔ عامر جیسے لڑکے لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور پھر دھوکا دے کے چلے جاتے ہیں۔عائشہ اماں کی بات کاٹتے ہوئے فوراً بولی نہیں اماں عامر ایسا بالکل نہیں ہے... بیٹا سمجھنے کی کوشش کرو حیدر بہت ہی شریف اور سلجھا ہوا لڑکا ہے وہ سب سے بڑی بات پڑھا لکھا ہے تمہیں بہت خوش رکھے گا اور پھر مامی ماموں جان بھی تو تم سے بہت پیار کرتے ہیں۔ بیٹا ہماری عزت کا خیال کرو"۔
لیکن عائشہ پر اماں کی کوئی بات بھی اثر نہیں کر رہی تھی۔ وہ تو بس عامر کو چاہتی تھی اور بس اسی کے گن گا رہی تھی۔
 اماں کے بہت سمجھانے کے باوجود جب عائشہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی تو زینب بی بی نہ چوہدری صاحب کو سارے معاملے سے آگاہ کردیا۔ چوہدری صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا لیکن عائشہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس لئے اپنی بیٹی اور اپنی عزت کا خیال کرتے ہوئے اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔
 عائشہ کے ابا کی بہت عزت تھی اس لیے اپنی لاڈلی بیٹی کے آگے ہاتھ جوڑے یہاں تک کہ چوہدری صاحب نے اپنی پگڑی اتار کے عائشہ کے پاؤں میں رکھی اور اپنی عزت کا واسطہ دیا۔
لیکن عائشہ کو تو صرف عامر چاہیے تھا۔اور وہ عامر جو محض اس کے ساتھ ٹائم پاس کر رہا تھا۔
 (یہاں پر ایک بات کہنا چاہوں گی ہم لڑکیاں بہت معصوم ہوتی ہیں کوئی دو میٹھے بول بول دے تو اس پر اپنا سب کچھ وار دیتی ہیں۔ خدارا اپنی اور اپنے والدین کی عزت کو سلامت رکھیں اور سب سے بڑی بات ہمارا اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم کسی غیر محرم کو دیکھیں، اس سے ملاقات کریں یا پھر اس سے محبت کے دعوے کریں۔ اللہ پاک ہم سب کی عزت کی حفاظت رکھیں اور ہمیں نیک ہدایت دیں آمین)۔
 بات حد سے بگڑ گئی اور حیدر تک بھی پہنچ گئی۔ اگرچہ حیدر عائشہ کو پسند کرتا تھا مگر اس نے یہ بات سنتے ہی رشتے سے انکار کردیا (آخر مرد تو مرد ہی ہوتا ہے)۔
 چوہدری صاحب نے عائشہ کو بہت سمجھایا کہ اس لڑکے کو بھول جاؤ میں اپنی ساری جائیداد تمھارے نام کر دوں گا لیکن عائشہ کو کچھ بھی منظور نہیں تھا۔
 عامر کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ اپنی محبت سے مکر گیا او عائشہ سے دور دور رہنے لگ گیا یہاں تک کہ اس کے خط کا جواب بھی نہ دیتا اور اسے نظر انداز کردیتا۔
 چوہدری صاحب نے بہت سوچنے کے بعد خان صاحب سے ملاقات کی اور انہیں ساری بات بتانا مناسب سمجھا۔
خان صاحب نے اپنے بیٹے کی غلطی ماننے کی بجائے عائشہ کا برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور اس پر الزام لگانے لگے۔
 چودھری صاحب رونے لگے اور گھر آکر عائشہ کو ساری بات بتائی لیکن عائشہ کہاں سمجھنے والی تھی اس کی دنیا تو بس عامر تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
 یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور چوہدری صاحب کی خاندان میں کوئی عزت نہ رہی کسی سے نظر ملانے کے قابل نہ رہے سات پردوں میں رہنے والی بیٹی اب ھر کسی کی زبان پر تھی چوہدری صاحب ہر وقت سوچ میں ڈوبے رہتے جب بڑی بیٹی ایسی ہے تو چھوٹیوں پر کیا اثر ہوگا۔
عائشہ کی اماں بھی پریشان رہنے لگی پریشانیوں کی وجہ سے بیماریوں نے آ گھیرا اور بستر سے جا لگی۔
 عائشہ نے عامر کو خط لکھا کہ اگر آج تم مجھ سے ملنے نہ آئے تو میں زہر لے لوں گی عامر نے عائشہ کی کوئی پرواہ نہ کی اور وہ اپنی دنیا میں مگن رہنے لگا۔ دو دن گزرنے کے بعد جب عامر کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو عائشہ نے زہر لے لیا۔ حیاء نے عائشہ کی حالت دیکھی تو فوراً اماں اباا کو بتایا، جلد ہسپتال لے جانے کی وجہ سے عائشہ موت کے جال سے تو نکل گئی لیکن عامر کے جال سے نہ نکلی.
 عائشہ کی اماں یہ صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور اللہ کو پیاری ہوگئیں۔اولاد کا غم وہ واحد غم ہوتا ہے جو ماں باپ کو اندر سے کھا جاتا ہے۔ ماں کی موت کے بعد اور عامر کی بے رخی کی وجہ سے عائشہ بہت غم زدہ سی ہوگئی اور بہت گم سم رہنے لگی۔ جب عامر کو ان باتوں کی خبر ملی تو اس کو احساس ہوا کہ عائشہ تو سچ میں اس کی محبت میں گرفتار ہے۔ اس نے عائشہ کو ملنے کا پیغام بھیجا۔ اس نے عائشہ کو دیکھتے ہی کہا عائشہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے۔ اور عامر کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل پڑے شاید اسے عائشہ کی محبت کا احساس ہوا تھا۔ اس نے عائشہ کو کہا "عائشہ ہم کبھی بھی ایک نہیں ہوسکتےتمہیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی.. نہ میں تمہارے قابل ہوں آج سے تم اپنے راستے میں اپنے راستے۔ میرے پیچھے اپنی زندگی خراب مت کرو ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا"۔ یہ سب سن کر عائشہ رونے لگی اور گھر چلی آئی۔چوہدری صاحب نے سوچا ماں کی موت کے بعد شاید اب ان کی بیٹی سنبھل جائے اور انہیں ان کی پہلی والی عائشہ مل جائے مگر عائشہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ عامر کو نہ بھول سکی۔
 خان صاحب نے عامر کا رشتہ اپنی بہن کی بیٹی کے ساتھ پکا کر دیا۔ عامر کو زہرہ بالکل بھی پسند نہ تھی۔ مگر خان صاحب نے عامر کو حکم دیا کہ اگر تم نے زہرہ سے شادی کرنے سے انکار کیا تو میں تمہیں اس گھر سے نکال دوں گا مگر پھر بھی عامر نے شادی سے انکار کردیا اور گھر چھوڑ دیا۔ کچھ ہفتے گزرنے کے بعد جب عامر گھر واپس نہ آیا تو ارسل نے پولیس میں رپورٹ درج کروا دی۔ جب پولیس کی کافی تشویش کے باوجود بھی عامر کا کچھ پتہ نہ چل سکا تو خان صاحب چوہدری صاحب کے گھر جا پہنچے اور انہیں دھمکی لگائی کی اگر دو دن کے اندر میرا بیٹا نہ ملا تو میں تمہاری بڑی بیٹی کے ساتھ ساتھ باقی بیٹیوں کا بھی قتل کروا دوں گا۔ یہ سن کر چوہدری صاحب پریشان رہنے لگے اور انہوں نے بھی عامر کا پتہ لگانا شروع کیا۔
 کچھ دن یوں ہی گزر گئے، ایک روز صبح صبح دروازے پر دستک ہوئی عائشہ کے نام کا خط ملا جس پر لکھا تھا۔
 "عائشہ! میں صرف تم سے محبت کرتا ہوں میرے ابو جی نے میرا رشتہ زہرہ سے کردیا تھا اور اگلے ہی ہفتے میری شادی کا فیصلہ بھی سنا دیا تھا۔ لیکن مجھے ان کا فیصلہ ہرگز قبول نہیں تھا اس لئے میں گاؤں چھوڑ کر آگیا۔
عائشہ! میں صرف تمہارا ہوں.... اس جہان میں تو ممکن نہیں مگر اس امید کے ساتھ خداحافظ کے اگلے جہان میں تمہیں تمہارا ہو کر ملوں گا۔
 خوش رہنا اور چوہدری صاحب سے کہنا کہ میں ان کی معافی کے قابل تو نہیں مگر پھر بھی اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دیں۔
 تمہارا عامر"۔
 یہ پڑھتے ہی عائشہ زور زور سے رونے لگی۔ اسی شام پولیس کو گاؤں کی بڑی نہر سے ایک لاش برآمد ہوئی اور تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ لاش عامر کی ہے۔
 جب عائشہ کو اس بات کا پتا چلا تو وہ جیسے ایک زندہ لاش بن کر رہ گئی۔ ایک سال گزر چکا تھا، چوہدری صاحب عائشہ اور اپنی باقی بیٹیوں سمیت شہر روانہ ہوگئے۔
 عائشہ زندہ تو تھی مگر زندوں میں شمار نہ تھی سارا دن ایک ہی جگہ بیٹھی رہتی۔ نہ کچھ بولتی نہ ہی کسی کی سنتی شاید قدرت کو یہی منظور تھا۔
 حیاء سمیت باقی دو بہنیں بھی اچھے اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لگیں۔
ایک روز حیدر کا شہر سے گزر ہوا تو اس نے چوہدری صاحب کو دیکھا اور ان سے سلام دعا کے بعد ان کے کافی اصرار پر ان کے ساتھ ان کے گھر چلا گیا۔ چوہدری صاحب نے حیدر کو ان تمام باتوں سے باخبر کیا کیونکہ حیدر ایک نیک اور نرم دل انسان تھا اس لیے اسے تمام باتیں سن کر بے حد افسوس ہوا۔
 جب اس نے عائشہ کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ عائشہ کو کہنے لگا "عائشہ! جانے والا اس دنیا سے چلا گیا ہے اسی میں اللّٰہ کی بہتری ہوگی اگر تم چاہو تو اب بھی سب کچھ بھلا کر مجھ سے شادی کر سکتی ہو"۔ لیکن عائشہ نے اسے یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ
 "نہیں حیدر... میں اب بھی صرف عامر سے ہی محبت کرتی ہوں اس جہان میں اسکی نہ ہوسکی تو کوئی بات نہیں اگلے جہان میں ضرور اسکی ہو کر ملوں گی۔ اگر تم چاہو تو حیاء سے شادی کر سکتے ہو"۔کافی سوچنے کے بعد حیدر نے چوہدری صاحب سے حیاء کا ہاتھ مانگا اور اگلے ہی روز ماموں، مامی اور زوبیہ شہر آگئے انہیں بھی حیاء کا رشتہ دل سے قبول تھا۔ ایک ہفتے میں حیاء اور حیدر کی شادی ہوگی۔ حیدر اور حیاء بھی اپنی فیملی کے ساتھ خوشی خوشی رہنے لگے۔ چوہدری صاحب بھی کافی حد تک مطمئن تھے اور یوں عائشہ کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوگیا۔
********************

Comments

Post a Comment