Roodad mela ooch sharif episode 3 by Malik Aslam Hamsheera


رُوداد  میلہ اُوچشریف
تحریر ملک اسلم ہمشیرا
قسط نمبر : 3

تھوڑی دیر تک ہم کھڑے  جُوس والے کی صدا سے محظوظ ھوتے رھے ، ،پھر ہم نے میلے کی اُس طرف کوچ فرمایا جہاں پر رش کی وجہ سے گھمسان کا رَن پڑا ھوا تھا،اچانک شبیرے کی نگاہِ کرم سامنے موجود وراٸٹی شو پر پڑی ،چنانچہ رشیدے نے میری طرف دیکھا میں نے شبیرے کی طرف چنانچہ شبیرے نے شرم سے نگاہیں نیچی کرلیں یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ موصوف بھی جمالیاتی حِس کی تسکین فرمانا چاہتے ھیں
بالاخر ہم تینوں  بعوض حق القَہر پچاس روپے سکہ راٸج الوقت مٶجل ادا کر کے  بے خطر آتشِ نمرود میں کود گٸے ، اندر تو منظر ھی عجب و غریب تھا بلکہ بہت زیادہ ہی غریب تھا جسکا اندازہ بندہ ناچیز نے اُن کے کپڑوں کی کمیابی سے لگا لیا تھا، درجن بھر مستورات نصیبو لال کے گانے ”منجی وچ ڈانگ پھیر دا“پر ات مچا رکھی تھی،ہر ایک لڑکی ہر صاحبِ دل کو یہ باور کروانے کی کوشیش میں تھی کہ آج تک میں نے تیرے جیسا وجہیہ اور چہرے مُہرے والا بندہ پورے براعظم ایشیإ میں نہیں دیکھا
،ہم تینوں بھی خوش فہمی کے اعلی درجے پر فاٸز ھو چکے تھے ، لہذا ہم تینوں نے اپنے اپنے مطلوبہ مقامات پر نظریں جما لیں اور آصف زرداری کی طرح ھواٸ چُمیوں کی بوچھار شروع کردی ،پھر چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ شبیرے نےکاکُروچ کی طرح موچھیں ہلاتے ھوٸے جیب سے دس کا کنوارا نوٹ نکالتے ھوٸے اور ایک گیرنی کی شکل والی لڑکی کی طرف پیش قدمی شروع کردی، جس نے چہرے پر ڈسٹمبر پینٹ کے پورے چار پانچ  کوٹ کیے ھوٸے تھے، مطلوبہ لڑکی نے بھی شبیرے کا نیک ارادہ بھانپتے ھوٸے خراجِ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے٠٠٠ رقص کرتی لہراتی بل کھاتی شبیرے کے مقناطیسی میدان کے قریب پہنچ گٸ ،حالانکہ عام حالات میں تو شبیرے کو دیکھ کر چاچے فضلو کی کھوتی بھی  منہ ساٸیڈ پہ پھیر لیتی ھے،مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ پیسے کی کرامت تھی

سکھاٸے کس نے  گشتیوں کو یہ اندازِ ابلیسانہ٠٠٠٠

آدھے گھنٹے تک ہمارے اور اُن مستورات سے نظروں ہی نظروں میں مزاکرات ھوتے رھے مگر مزاکرات کی ناکامی پر ھم گناہ کے کاموں پر لعنت بھیجتے ھوٸے وراٸٹی شو سے باھر نکل آٸے٠٠٠٠
خواتین کی بے وفاٸ  اور خود غرضی سے مایوس ھو کر ہم نے موت کے کنویں میں موجود خُسروں پہ اپنی قسمت آزماٸ کا فیصلہ کیا،لہذا  جیسے ھی ٹکٹ شروع ھوٸ میں نے وہ پانچ سو والا تاریخی نوٹ نکالنا شروع کر دیا جس کو میں نے جیب کٹنے کے خدشے کے پیشِ نظر آزار بند کی سرحد پار کروا کر شلوار کے اندر محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا تھا،لہزا دس منٹ کی محنت شاقہ کے بعد پانچ سو کا نوٹ برآمد کر لیا،چنانچہ ہم تینوں ایک دوسرے کے معاشی تحفظات دُور کرنے کی غرض سے ایک ھنگامی اجلاس منعقد کیا، مزاکرات کی کامیابی   کے بعد خود  میں نے پانچ سو کے نوٹ کی بَلی چڑھانے کا فیصلہ کر لیا،جیسے ھی شو شروع ھوا اچانک ٹکٹیں چلنا شروع ھو گٸیں،میں بھی حصولِ ٹکٹ کیلیے  لوگوں کی صفوں کو چیرتا ھوا ٹکٹ والے کے پاس پہنچ گیا،اور پانچ سو تھما کر تین ٹکٹیں طلب کیں،30روپے ٹکٹ کے حساب سے رقم کاٹی اور بقایا رقم جلدی جلدی مجھے تھمادی، مُٹھیاں بھینچتے ھوٸے جیسے ہی میں غازی بن کر لوٹا تو شبیرے اور رشیدے نے مداح سراٸ کے جزبے سے سرشار ھو کر  مجھے کندھوں پہ بٹھا لیا،مگر میں نے کندھے سے فوراً اُتر کر بقایا رقم کی پڑتال کی تو بقایا 410کی بجاٸے 310 تھا، چنانچہ باقی ماندہ رقم کی وصولی کیلیے دو گواھاں کی معیت میں دوبارہ پہنچ گیا،چنانچہ وھاں پر پہنچ کر آسمان کی طرف منہ کر کے اپنا مدعا بیان کیا اور اسے رقم دکھاٸ ،تھوڑی گرج چمک کے بعد اس نے رقم دوبارہ مانگی ھم نے رقم واپس کی اس نے رقم شمار کی واقعی 310روپے تھی،اس نے فوراً دو نوٹ پچاس پچاس والے اُن کے اوپر رکھے اور ہماری حق رسی کر دی ،ہم ایک مرتبہ پھر مُٹھیاں بھینچتے واپس آ چکے تھے،
ساٸیڈ پر جا کر رقم دوبارہ گِنی تو میرے قدموں تلے سے دھرتی کے ساتھ ساتھ جُوتی بھی نِکل گٸ کیونکہ اب رقم 210روپے تھی،شبیرے نے ایک مرتبہ پھر جانے کا مشورہ دیا مگر اب کی بار میں مزید حساب کتاب کرنے کا متحمل نہیں ھو سکتا تھا،شو شروع ھو چکا تھا ،لہذا ہم نےاسے خدا کی مرضی سمجھ کر٠٠٠موت کے کنویں کی سیڑھیاں چڑھنے لگے، اوپر جا کر دیکھا کنویں کے اندر چار عدد خواجہ سرا  اوپر  معاشی ابرِ کرم کو  پیاسی نگاہوں سے تک رھے تھے،اچانک شبیرے کی جوشِ محبت نے زور کا کڑکا مارا اور گیلی شلوار کے نیفے سے پچاس کا نوٹ نکالنا شروع کردیا ،تین منٹ کی جہد مسلسل سے پچاس کا نوٹ منظرِ عام پر آگیا،اب مسلہ پیسے کھلے کرانے کا تھا، سو اس معاملے میں میری سڑول فطرت کام آٸ اور میں نے فوراً پچاس کا چُھٹا دے  دیا،شبیرے کا پہلا نوٹ ہی خُسروں کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ھوا،پھر تو انٹر نیشنل ٹھرکیوں  کی طرف سے نوٹوں کی موسلہ دھار بارش شروع ھو گٸ، جب یہ بارش تھم چکی تو اب فنکار کی طرف سے موٹر ساٸیکل چلانے کی باری تھی،لہذا ہم نیچے اُتر آٸے کیونکہ ہم تیس روپے کیلیے کسی انسانی جان کو خطرے میں ڈالنا نہیں چاھتے تھے،

جاری ھے٠٠٠٠٠٠٠٠

Comments