#از قلم ظہیرآفتاب
وادی سون#
*نصیب اپنا اپنا*
دوسری
دفعہ کا ذکر ہے ایک گاؤں میں دو لنگوٹیے یار رہا کرتےتھے۔ اتفاق سے دونوں نے ایک
ہی دن میں جنم لیا اور اس کائنات رنگ و بو میں پہلی مرتبہ اپنی آنکھیں کھولی۔ایک
کا نام سلیم جبکہ دوسرے کا نام اکرم رکھا گیا۔وہ ایک ہی فضا میں پلے بڑھے۔جب تھوڑی
شعور کی آنکھ کھلی تو دونوں کو ایک ہی مکتب میں داخل کرادیا گیا۔گاؤں میں چونکہ
ایک ہی کپڑے کی دکان تھی جو کہ ایک اندازے
کے مطابق 14 کچی دکانوں پہ مشتمل *کچا بازار* میں جمال زرگر کی دکان کے عقب
میں مشہورِ زمانہ
رانا
کبیرکریانہ سٹور کےساتھ *منیر کلاتھ ہاؤس*کے نام سے پہچانی جاتی تھی وہاں سے وردی
کا کپڑا خرید کیا۔منیر صاحب نےایک ہی تھان سے دونوں کی وردی کا کپڑا
"چررررررررر" کی
سمع خراش آواز سے بس ایک
ہی لمحے میں چاک کر دیا۔پھر اس دکان کی گلی کی نُکَڑْ میں واقع" دیدہ زیب
سلائ کا واحد مرکز مَہَر اسلم ٹیلر" کے پاس جاکر وہ کپڑے وردی سلائ خاطر اسے
دیے گۓ
۔ایک ہی دن کے وقفے میں وردی تیار ہوگئ۔ پیر کی علی الصبح وہ اکھٹے ہی مکتب پہنچے۔
وہ
دونوں ایک ہی مُعَلِّمْ کے
زیرِ تربیت ابتدائی تعلیمی
مراحل تدریجاً طے پاتے رہے
وہ
ہم مکتب ساتھی ہم جماعت ہونےکے ساتھ ساتھ یکساں طبیعت کی بدولت ہم مزاج، ہم خیال
اور ایک دوسرے کے ہمراز بھی تھے۔مکتب کے بعد ہائ سکول میں داخل ہوۓ۔
میٹرک تک اکھٹے پڑھتے رہے اس دورانیہ میں اتفاقی طور پر ہرکلاس میں ان کا سیکشن
بھی ایک ہی تھا۔ میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کےلیے ڈگری کالج میں انٹر کی کلاس جاری
تھی کہ آرمی کی بھرتیاں شروع ہوئیں سلیم نے "اپلائ "کیا اور بھرتی ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد گاؤں سے نقل مکانی
کی اورشہر میں گھر بنا لیا۔ اکرم نے کالج چھوڑ دیا اور ابا کے ساتھ دکان پر کام کرنے
لگا۔عید آئ تو اکرمے نے سوچا کیوں نا آج سلیم کو ملنے جایا جاۓ
پرانی یادیں تازہ ہوں گی اور اسی بہانے شہر کی رونق بھی دیکھ لیں گے۔عید کے دوسرے
روز اکرم پہنچ گیا سلیم کے گھرـ
دروازے پہ دستک دی۔
دروازہ
کھلا تو کیا دیکھتا ہے کہ سلیم پرانے داغدار کپڑوں میں ملبوس ہاتھ میں رنگ روغن
والی بُرشی اٹھاۓ
دراوزہ پہ نمودار ہوا جسے دیکھتے ہی اکرم ھَکا بَکا رہ گیاـ
خیر
کچھ دیر بیٹھے گپ شپ لگائ۔ پوچھا سلیم بھائ یہ
چونے کی بالٹی یہ بُرشیاں
پٹھے
آلودہ کپڑے میلا بدن الجھے بال مگر طبیعت ھشاش بشاش کھلکھلاتا چہرہ مسرور پیشانی
متبسم لب یہ بھرپور خوشی کا ماحول سمجھ سے بالا تر ہے ۔
آخر
ماجرا کیا ہے؟
سلیم
نے ہونٹوں کو اندرکی طرف بھِینچتے ہوۓ
دانتوں میں دبانے کی کوشش کی گویا مسکراہٹ دبا رہا ہو
بولا
!
جگر!
دراصل بات یہ ہے کہ پرسوں
" تیرے ویر دا ویاہ اے"
یہ
اس کا بھولا پن تھا کہ وہ خیال کر بیٹھا کہ اس چونا پوشی،رنگ روغن اورچتر کاری کے
بعد شادی ہونا یقینی امر ہے۔
اکرمے کے دل میں بھی ارمان
مچلنے لگے اکھیوں کے سامنے چڑھتی بارات کے دیدنی مناظر رقص کرنے لگے۔کانوں میں
ڈھول ڈھمکے اور موسیقی کے مختلف سُر رس کھولنے لگے۔وہ گُم اپنے خیالوں میں شبِ
زفاف کی سہانی گھڑیوں میں ھجرہ عروسی میں داخل ہوکر بس ابھی کے ابھی گھونگھٹ
اٹھانے ہی والا تھا کہ سلیم نے اسے ھَولے سے چپیڑ مار کہ افسانوی دنیا سے باھر
کھینچا۔کہا اوۓ
کہاں گم ہے؟ کن سوچوں میں پڑ گیا ؟؟
اکرمے
نے سر جھنجھلاتے ہوۓ
عدمِ اعتمادی سےکہا۔ نہیں؛ کچھ نہیں ـبس
یونہی ـ
خیر
باتیں ہوتی رہیں وہ گمگشتہ دماغ سے سنتا رہا اور ہوں ہاں میں رسمی جواب دیتا رہا
۔کچھ دیر بعد اجازت لی اور واپس گھر پہنچ گیا۔
دکان
پہ گیا چونا اور رنگ روغن لیے پرانے کپڑے پہنے اور
وگ
و تگ سفیدی کرنے لگ گیا۔دو دن گزرے سلیم کی شادی ہوگئ تو اس کی اعتمادی میں اور بھی پختگی آگئ۔خیر اس نے جیسے
تیسے سفیدی کا کام مکمل کرنے کی ٹھان لی کہ جلد یہ سفیدیاں مکمل ہوں اور اپنی شادی
کی بات چلے۔
جب
سفیدیاں مکمل ہو چکیں تو وہ یہی سوچ لیے ابا جی کے پاس پہنچ گیا۔
ابا
جی برآمدے میں کرسی پہ بیٹھے اپنی موٹے شیشوں والی عینک لگاۓ
اخبار پڑھ رہے تھے۔اکرم نے ابا جی کوچاۓ
پکڑاتے ہوۓ
مخاطب کرنے کی غرض سے لرزتے ہونٹوں سے کہا
ابا جی دیکھو ناسفیدی کا کام میں نے کیسی مہارت سے کیا ہے۔سلیم کی شادی کے پسِ
منظر کے تحت جواب میں شادی کا لفظ متوقع تھا۔
وہ
ابا کے جواب کا منتظرتھا۔ اس نے یہ ساری تگ و دو اسی لیے تو کی تھی۔
ابا
جی اب اخبار کے بکھرے صفحوں کو ترتیب دے رہے تھے اور اکرم کی سانسیں جواب سننے
کےلیے بےترتیب ہوتی جا رہی تھیں۔اب اکرم سے مزید انتظار مشکل تھا اس نے دوبارہ کہا
ابا جی پورے گھر میں سفیدی تو ہوچکی ہے اب کیا خیال ہے؟
ابا
نے عینک کے شیشوں کو نیچے اور بھؤوں کو اوپر اُچکاتے ہوۓ
کہا۔
ہونہہ!اچھا ہوگیا۔
اب 5 سال آرام سے نکل
جائیں گے 😛😭😰😥😓
ــــــــــــــــــــــــــــــ
؎مقدر نے دیا دھوکہ قسمت نے کی بیوفائی
ان
سردیوں میں بھی وہی پھولوں والی رضائ۔🤣🤧
Comments
Post a Comment