"چھوٹے کی شرارت"
راقم ظہیر آفتاب
زندگی دھوپ چھاؤں کا نام ہے
انسان کبھی اداس ہوتا ہے کبھی خوش ہوتا ہے پریشانی میں آہیں اور آنسو جبکہ
خوشی میں ہسنتا ہے
جس درجہ کی خوشی اسے ملتی ہے اسی کیفیت
میں اس کا چہرہ کِھل اٹھتا ھے
کبھی ہلکی سی مسکان اس کی پیشانی پر نموراد
ہوتی ہے تو کبھی زیر لب مسکراتا ہے متبسم لبوں
سے خوشی اس کے چہرے سے عیاں ہوتی ہےـ
کبھی ہلکی آواز میں ہنستا ہے جسے صرف وہ
خود سنتا ہے اور
جب انتہا درجے کی اچانک خوش کن خبر سنتا
ہے تو مارے خوشی کے قریب بیٹھے شخص کے ہاتھ پر زوردار چماٹا مار کر بآواز بلند بتیسیاں
نکالے ہنسنے لگتا ہے
ابھی کل کی بات ہے
دوستوں کے ساتھ چاۓ
پی رہا تھا کہ ابو کا میسج آیا
""یونیورسٹی سے چھٹی لےکر جلدی گھر
آجاؤ۔جھٹ پٹ سے تمہاری شادی کی بات طے ہوگئ ہے اتوار شام کو نکاح ہے
قریبی رشتہ داروں کو مطلع کیا ہےدیگر انتظام مکمل ہیں جمعہ شام تک ہر صورت
پہنچنا
والسلام""
میسج پڑھتے ہی بے اختیار مسکراہٹ چہرے
پہ پھیل گئ میسج پڑھنے کے دوران دبی ہنسی کو ہونٹ بھینچ کر قابو کیا
میسج میں لکھے
"اتوار شام کونکاح" کے الفاظ پڑھے تو
"دب دب" کے ھاسا نکلنے لگا پاس بیٹھے جنید کو رکھ کے چپیڑ ماری اور میسج پڑھ کے سنایا پھر
سب کے چہرے پہ خوشی کی لہر دوڑ گئ
"پُٹھیاں"لڈیاں مارنے لگے
پارٹی ہوئ دوستوں کو وداع کیا
حمام پہ آیا، خط بنوایا،بالوں کی سپیشل
کٹنگ کرائ اور خوشی میں باربر کو سو روپے اضافی بھی دے دیے
بیگ تیار کیا اور گھر روانہ ہوا
گھر پہنچا تو سب کچھ نارمل تھا البتہ چھوٹا
بھتیجا بتیسیاں نکالے ہسا جا رھا تھا
پوچھا "اِنَّا" کیوں ہس رہا
ہے بے
کہنے لگا!
ہی ہی ہی
"وہ شرارتی میسج بابا کے موبائل سے میں نے کیا
تھا آپ کو
"چاچو شادی شودی والا کوئ چکر نہیں
"
””لو کرلو گل““ 😭😂😙😜😜😁😁😁😇
"ہک واری فر"
دل کے ارماں آنسؤ میں بہہ گۓ
************
Comments
Post a Comment