اخلاقیات کا قیام
از قلم: ناز قریشی
آج
اکثریت خود کو باشعور ثابت کرنے کیلئے بہت سے مسکین افراد کی بغیر اجازت تصاویر
بنا کر "اخبارات اور سوشل میڈیا" پر اپلوڈ کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اسکول،
کالج اور یونیورسٹی اور بازاروں میں خواتین کی تصاویر اور ویڈیو بغیر اجازت بنا کر
محفوظ کر لی جاتی ہیں۔ یہ تصاویر ہزاروں مواقع اور تقاریب میں بار بار دیکھائی
جاتی ہیں۔ یوں تو مجھ سمیت تمام افراد باشعور کہلاوانا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ مگر
کیا کبھی سوچا کہ ان تصاویر کے ذریعے ہم اخلاقی اور قانونی مجرم بن رہے ہیں۔ ذرائع
ابلاغ کا چہرا اوڑھ کر ڈھیروں افراد معصوم لوگوں کی تصویر کشی کرکے بعد میں انکا
غلط استعمال کرتے ہیں۔ متعدد واقعات دیکھنے کو ملے کہ ہماری قوم کی بیٹیاں مجبوراً
اپنی تصاویر اور فون نمبر کسی ادارے کو بھیجی جانے والی درخواست پر چپکاتی اور
لکھتی ہیں۔ اس صورت میں ان تمام اداروں کو سختی سے اس بات پر عمل کرنا چاہیئے کہ وہ تحفظ یقینی بنائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ
پاکستان سمیت دنیا بھر اس قانون کو اطلاق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی کی تصویر
کشی یا ویڈیوز سے دل آزاری نہ ہو۔ "اسلامی جمہوریہ پاکستان" میں ہم
اداروں اور سیاست دانوں کو قانون پر عمل نہ کرنے پر کئی نازیبا الفاظ سے نوازتے
ہیں۔ کیا کبھی یہ سوچا کہ اگر کسی کی غلط
طریقے سے گھریلو تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھائی ہے۔ تو انسانیت اور قوم کے
تحفظ کیلئے ہم نے کوئی عمل قدم اٹھایا؟ کافی دفعہ غیر شعوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے
ہم اسے دوسروں کو کیوں بھیجتے ہیں؟ کیا معاشرے میں پیدا ہونے والے خرابیوں میں
ہمارا بھی کوئی کردار ہے؟ گلے شکوے کو چھوڑ کر ہم مثبت راہ کیوں نہیں اپناتے؟
خدارا
بحثیت قوم ، مسلمان اور پاکستانی اپنا مثبت کردار کریں۔ آپ اپنا فرض پورا کریں۔
دوسروں کے حقوق پورے کریں۔ إن شاء الله مثبت تبدیلیاں ہم خود جلد محسوس کریں گے۔
***********************
Comments
Post a Comment