کالم نگار: قراۃ العین دا رائیٹر
الفاظ قیمتی ہوتے ہیں۔الفاظ ضروری ہوتے ہیں۔ الفاظ ضرورت بھی ہوتے ہیں۔
ہم اپنے احساسات کو، جذبات کو جب تک لفظوں کا خول نہیں پہنا دیتے۔۔تب تک ہم محروم رہتے ہیں۔۔اپنی ہی بات کی صدا سے۔۔
لفظوں کا چناؤ علم کے وجود کی ضمانت ہے۔۔لفظوں کی چین بنتی چلی جائے تو جملہ بن جاتا ہے۔۔
ایک اچھا جملہ۔۔کسی دوسرے انسان سے کہا گیا ہو تو اس کے دن کو اچھا بنا دے گا۔اس کی بہت سے محرومیوں پر پردہ ڈال دے گا۔
اور کسی سے کہا ہوا غلط جملہ اس کو پریشان کر دے گا ۔اس کی کمیوں اور محرومیوں کے احساس کو بھی بڑھا دے گا۔ وہ کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا۔
اس کے دل میں رہ جائے گا وہی ایک جملہ۔۔انسان کے اعمال میں لفظوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔۔
اعمال سے مراد آپ کی شخصیت کیونکہ شخصیت توبنتی ہی عمل سے ہے۔اچھا ہو یا برا۔۔بری شخصیت سمجھی جائے۔۔یا اچھی۔۔
کبھی سوچا ہے کہ جب انسان ٹوٹ چکا ہوتا ہے یا اپنی زندگی سے مسئلوں سے لڑ لڑ کر تھک چکا ہوتا ہے۔۔تو وہ چپ اختیار کر لیتا ہے۔۔
تب وہ تھک چکا ہوتا ہے۔۔اس کے الفاظ تھک چکے ہوتے ہیں۔۔اتنے تھک جاتے ہیں کہ یہ اس انسان کا ساتھ نہیں دیتے۔۔
اور تب انسان خاموشی کو اپنا لیتا ہے۔خاموشی سہارا بن جاتی ہے۔سکون بن جاتی ہے۔۔کبھی کبھی تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی خوشی ہی خاموشی میں ہے۔۔کبھی کبھی بہت کچھ لکھنا چاہتا ہے دل لیکن اسے ’’سمجھ‘‘ نہیں آرہی ہوتی کہ کیا لکھا جائے۔ اسے سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ اس کے دل کی کیفیت کو الفاظ ٹھیک انداز میں بیان کر بھی پائیں گے یا نہیں۔۔جب عقل کامل ہو جائے تو کلام کم ہو جاتا ہے۔۔یہ درست بات ہے کہ بعض وقت ایسا ہوتا کہ آپ کی بات میں وہ کمال، رعب اور ذہانت جیسی خصوصیات نمایاں نہیں رہتیں جتنی آپ کی خاموشی یہ خصوصیات ظاہر کرتی ہے۔ خاموشی میں سکون محسوس کرتا ہے انسان پتہ ہے کیوں؟
کیونکہ خاموشی ایک انسان کا اصل’’کردار‘‘ ہے جو عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ انسان میں نمودر ہوتا ہے۔
ایک او ربات بتاؤں ! خاموشی اپنے آپ میں ایک شور ہے، خاموشی خود اپنے آپ میں ایک کردار ہے۔’’مضبوط کردار‘‘ انسان کا ’’مضبوط سہارا‘‘
عقل والوں کے لیے۔۔
کامل عقل۔۔ کہتے ہیں کہ۔۔
محنت اتنی ’’خاموشی ‘‘ سے کرو کہ تمہاری کامیابی ’’شور‘‘ مچا دے۔۔ خاموشی کا شور تمہارے شور مچانے سے کہیں زیاد باوقار ہوگا ۔۔کہیں زیادہ طاقت ور ہوگا اور کہیں زیادہ با اثر ہوگا۔۔
کبھی کبھی ایسا نہیں لگتا کہ خاموشیاں ہمارے اندر خلاء بناتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔۔ایک ایسا خلاء جسے کسی آواز کی ،کسی سہارے کی، کسی شور کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ پُر ہو سکے۔۔
کبھی کبھی انسان اپنی زندگی سے یا اپنے مسئلوں سے لڑکر نہیں تھکا ہوتا۔۔ بلکہ اس لیے تھک جاتا ہے۔۔کہ ۔۔وہ صرف دوسروں کی آواز اور دوسروں کی تکلیفیں سننے اور ان کا مداوا کرنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے۔۔
اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ اس کی اپنی آواز کیسی تھی؟ اس کا اپنا درد کیسا تھا؟ اس کی اپنی تکلیف کیسی تھی؟۔۔۔کیونکہ اپنا درد ، تکلیف، آواز اسے اجنبی محسوس ہوتے ہیں۔۔
اور جب یہ اجنبیت دماغ اور دل کو جھنجوڑنے لگتی ہے نہ۔۔تو انسان اپنے اندر بھاگتا ہے۔۔ اپنے اندر بنی ایک ٹوٹی کشتی پر بیٹھ کر ایسے خشک اور بنجر سمندر میں سفر پر نکل جاتا ہے ۔۔جہاں پر خاموشی اور وحشت کا ڈیرہ ہوتا ہے۔۔
وہ اس خاموشی اور وحشت کا اتناعادی ہو چکا ہوتا ہے۔۔کہ اگر اسے یہاں آواز سنائی دینے لگے ۔۔تو وہ اپنے اندر اور دور بھاگتا ہے۔۔
یہاں تک کہ جب پیچھے مڑ کر نظر دوڑاتا ہے۔۔۔ تو اس کی آوازیں سننے والے لوگ یہ بھول ہی چکے ہوتے ہیں۔۔ کہ اسے بھی تو سننا تھا۔۔
وہ بھی کسی شاعر کی لکھی ہوئی نظم میں ایک چپ سی رات ڈھونڈتا ہے۔۔جہاں وہ بارش کی ٹپ ٹپ کو آنسوؤں کا ساز سمجھتا ہے۔۔
وہ ایسی ہی کسی رات میں انتظار کرتا ہے۔۔کہ کوئی ایک شخص تو ہو نہ ایسا ۔۔جو خاموشیاں سنے اور سمجھے۔۔ اور اگر نہیں سمجھ سکتا ۔۔
تو وہ آوازہی واپس لے آئے۔۔جو خود کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کہیں کھوگئی ہے۔۔
الفاظ قیمتی ہوتے ہیں۔۔ ہاں۔۔ الفاظ ضروری بھی ہوتے ہیں۔۔اور ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔۔کہ الفاظ ضرورت بھی ہوتے ہیں۔۔
کسی زخم پر مرہم کے لیے۔۔۔کسی نا امیدی میں امید کے لیے۔۔کسی خاموشی میں شور کے لیے۔۔کسی تھکن میں سکون کے لیے۔۔کسی رات میں صبح کے لیے۔۔۔
لیکن الفاظ کہاں ضروری ہوتے ہیں؟۔۔کہاں ضرورت ہوتے ہیں؟۔۔کہاں قیمتی ہوتے ہیں۔۔؟
یہاں تو جہاں الفاظ کی فراوانی ہوتی ہے۔۔وہاں ہی ضروری نظر آتے ہیں۔۔جہاں آوازیں پہلے ہی گڈ مڈ ہو رہی ہوں۔۔وہاں ہی ضروری نظر آتے ہیں۔۔جہاں پہلے ہی شور کانوں کو ناگوار گزر رہا ہوتا ہے۔۔وہاں ہی الفاظ مزید اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔
تو یہ الفاظ وہاں کیوں نہیں ہوتے ۔۔۔جہاں سے شور کا گزر نہیں ہوتا ۔۔جہاں اندھیرے راج کرتے ہیں۔۔جہاں خاموشیاں آوازیں دیتی ہیں۔۔جہاں تھکن، کرب، زخم ، نا امیدی اپنی بادشاہت میں کسی کو خاموشی کی وحشت ناک وادی میں دھکیل چکی ہوتی ہے۔۔
وہاں کوئی کیوں نہیں آتا پھر۔۔ اسے واپس لینے۔۔ اسے بلانے۔۔سمجھانے۔۔کہ ہاں میں ہوں نہ۔۔ہاں میں سمجھوں گا۔۔سنوں گا۔۔تم خاموشی کو چھوڑو۔۔میرے پاس آجاؤ۔۔۔
پر نہیں۔۔ایسا ہونا ممکن ہی نہیں۔۔کیونکہ یہاں ہر شخص گلہ کرتا نظر آئے گا۔۔شور کرتا نظر آئے گا۔۔ کہ مجھے سنو۔۔مجھے سنو۔۔ دیکھو میرے ساتھ کیا ہوا۔۔دیکھو میں کیسے جی رہا ہوں۔۔ وہاں خاموشی نے کیا کرنا ہے۔۔وہاں الفاظ نے کیا کرنا ہے۔۔جہاں دونوں بے معنی ہو جائیں۔۔
آپ خاموش ہوں تب بھی سولی پر لٹکائے جائیں گے۔۔ بولیں تو تب بھی قصوروار۔۔
تو پھر۔۔ کہنا بس اتنا ہی تھا۔۔۔
کہ چلو ہم توڑ دیتے ہیں۔۔
جو روزہ چپ کا رکھا تھا۔۔
جو خاموشی سمیٹی تھی۔۔
جو باتیں درد کی تھیں۔۔
جو باتیں کرب کی تھیں۔۔
جہاں پر خود کو کھویا تھا۔۔جہاں پر ذات اپنی تھی۔۔جہاں پر بات اپنی تھی۔۔
جہاں پر درد بھی نہ تھا۔۔کسی کا کرب بھی نہ تھا۔۔
جہاں الفاظ کی طاقت۔۔ہم کو بھی رلاتی تھی۔۔۔
ہمارے زخموں پر مرہم۔۔ہمارے راتوں کی وحشت کو۔۔
مٹاتی تھی۔۔
مگر اک بات کا ڈر ہے۔۔۔اگر میں لوٹ آیا تو۔۔
یقیناًایسا ہوگا پھر۔۔۔
میرے الفاظ کو سننے۔۔میری کرچیوں کو چننے۔۔
کوئی میسر نہ آیا تو۔۔؟
کیونکہ۔۔یہاں پر لوگ تو صرف۔۔
تکلیفیوں کو بڑھاتے ہیں۔۔
کوئی کتنا بھی کرتا ہو۔۔
مگر مطلب نہ ہو اس سے تو۔۔
فوراً بھول جاتے ہیں۔۔
اگر تم اجازت دو۔۔ تو اک بات پوچھوں میں۔۔۔۔؟
کسی کے میسر ہونے کی ضمانت دو گے تم بھی کیا؟؟
جو اس خاموشی کو سمجھے گا۔۔۔؟
کالم نگار: قرا ۃ العین دا رائیٹر
very nice i like this
ReplyDeleteGOOD GOING
ReplyDelete