Rudad tareekhi mela by Malik Aslam Hamsheera


”رودادتاریخی میلہ اوچشریف “
تحریر ...ملک ا سلم ہمشیرا
اوچشریف بہاولپور
دوسری دفعہ کا ذکر ھے کہ  میں اور رشیدا  موٹر ساٸیکل  پر سوار ....میلہ گھومنے کی غرض سے اوچشریف کو روانہ ہوٸے ،ابھی ایک کلومیٹر سفر ہی طے کیا تھا کہ ”شبیرا آنِھل“ آفتِ خداوندی بن کر ہم پر ٹوٹ پڑا ،کیونکہ وہ بھی میلہ فتح کرنے کی غرض سے کسی سواری کی انتظار میں راستہ ناپے کھڑا تھا،چنانچہ ہمارے رُکتے ہی کسی لُندھے لاڈلےسالے کی طرح بلِا اجازت سریا ٹاٸپ ٹانگ  پھلانگ کر موٹر ساٸیکل کی ٹینکی پر براجمان ہو گیا اور خود ہی ڈراٸیونگ سیٹ سنبھال لی،چانچہ ہم تینوں  اوچشریف روانہ ھو گٸے
جیسے ہی ہم شہر کے قریب پہنچے ہمارے شاہی استقبال پر مامور قانون کے رکھوالے اقتصادی راہداری کے حصول کیلیے اپنے لمبے ھاتھ پھیلاٸے کھڑے تھے،چنانچہ قانون کے سپہ سالاروں نے شبیرے کی ہینڈل نما مونچھوں ، آنکھوں میں دس ٹن سُرمہ اور سر پر ذردے رنگ کے پٹکے سے دور ہی سے پہچان لیاکہ” اُن کا مطلوبہ بندہ فعل حال یہی ھے“چنانچہ نمبر پلیٹ کا آگے پیچھے معاٸنہ کیا گیا پھر کاغذ طلب کیے گٸے میں نے شناختی کارڈ پیش کیا پھر تعارف کرایا مگر  کچھ افاقہ نہ ھوا آخر منت سماجت کی مگر کاغزوں کا مطالبہ زور پکڑتا گیا ،آخر کار ہم سب نے جیب سے ایک ایک سُرخی ماٸل کاغذ نکالا اور قانون کی مٹھی میں دے دیا،چنانچہ کن اکھیوں سےکاغذات کی جانچ پڑتال کی گٸ،پھر خود کار نظام کے تحت ہم کو جانے کی اجازت دے دی گٸ
میلے پر پہنچتے ہی جس چیز نے آسمان سر پر اُٹھایا ہوا تھا ” وہ تھا” ممدو والا گھوٹا“ یہ عظیم دریافت بھی حال ہی میں پاکستان کے حصّے میں آٸی ھے،چند بادام کے دانے ہمراہ دَھڑی خشخاس کو ایک کھرلی میں ڈال کر ...انشقاق کا عمل شروع کردیا جاتا ھے جوں ہی سانٸسی اصولوں کے مطابق بادام کے ایٹم ٹوٹتے ھیں تو بے پناہ تواناٸ کا اخراج ھوتا بادام ہراروٹ یعنی”چاول کا آٹا“ ،خشخاس اور سکرین کے زنجیری تعامل کے نتیجے میں گھوٹہ افزودگی شروع ھو جاتی ھے ،اور ایک متحاط اندازے کے مطابق صرف ایک صد روپے کی لاگت سے تقریباً دو ھزار بیرل تک گھوٹہ کشید کیا جا سکتا ھے،مورخ لکھتا ھے کہ یہ گھوٹا فواٸد و ثمرات کے لحاظ سے 170بیماری کا علاج ھے ،لاٶڈ سپیکر پر باباٸے گھوٹہ کے فرمان کے مطابق  دنیا میں جتنے بھی مشروب اللہ تعالی نے انسان کی فرحتِ طبع کیلیے پیدا کیے ھیں ان میں سب سے افضل ترین شٸے یہ  ”گھوٹا“ھی ھے لہزا یہ سُن کر دل سے یہ دعا نکلی کہ أٸے اللہ پاک ”اگر یہ اتنی ہی صحت بخش چیز ھے تو جنت میں شہد ،شراب طھورا،اور دودھ کے علاوہ ایک نہر ”گھوٹے “کی بھی جاری فرمادے،بہر حال ہم نے دس دس روپے دے کر وہ آب حیات نوش کیا اور آگے چل پڑے....
تھوڑی دور ہی گٸے ھونگے کہ آگے لوگوں کا ایک جم ِ غفیر اکٹھا تھا،وھاں جا کر پتہ چلا کہ ایک مداری نے ایک ”پدم“ ناگ پکڑا ھوا ھے اور ابھی 5 منٹ میں اس کا درشن کروانے والا ھے، مگر ہر پانچ منٹ بعد وہ پٹاری کو پکڑتا پھر ھم کو کلمہ پڑھنے درود شریف پڑھنے کی تلقین کرتا مگر پھر سانپ دکھانے کا ارادہ کینسل کرکے کسی اور کام میں لگ جاتا،ابھی کھڑے کھڑے ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ مجمے سے ایک اکیسویں گریڈ کا مداری نکلا اور اُس نے ڈراماٸ  انداز میں انٹری ماری اور مداری کو چیلنج دیتے ھوٸے مقابلے کے لیے للکارنے لگا
پھر اس کے تھیلے کو منتر کے ذریعے آگ لگانی شروع کردی،جس سے بدحواس ھو کر پہلے والا معافیاں طلب کرنے لگا،معافی سے سینٸر مداری کا دل پسیج گیا اور اس نے ناصرف اسے معاف بھی کر دیا بلکہ اس نے ہم سے دس دس روپے لے کر اس کی داد رسی بھی کر دی،اس کے بعد ہم سینٸر مداری کو کوٸ پہنچی ھوٸ ہستی سمجھنے لگے اس کے بعد اس نے موتی منکوں کی تھیلی نکالی اور اس نے اُن موتیوں کی افادیت پر روشنی ڈالی القّصہ موصوف کے مطابق یہ گوھرِ نایاب جس شخص کے پاس ھوگا  اس کو اس منکے کی فیوض و برکات کے سبب ملک کی بادشاھی مل سکتی ھے،محبوب قابو میں آ سکتا ھے،آفیسر یا حاکم سے من کی مراد پوری کرواٸ جا سکتی ھے،چنانچہ 200روپے کی قلیل رقم کے عوض وہ لعل ِیمن حاصل کر لیا ،کیونکہ عرصہ دراز سے میری تین سالانہ ترقیاں رُکی ھوٸ تھیں سوچا ceoصاحب کو اس منکے کی مدد سے ہپناٹاٸز کروں گا ،چنانچہ منکے کو شلوار کی جیب میں ڈالا اور آگے چل پڑے
اتنے میں بھوک بھی لگ چکی تھی ہم  کچھ کھانے کیلیے آگے بڑھے تو رش میں ایک بریانی کی ریڑھی کھڑی نظر آگٸ ،جس کے ذاٸقے کا تو پتہ نہیں مگر وطن کی مٹی اُسے عظیم تر بنا رہی تھی،چنانچہ بریانی سے بچتے بچاتے آگے مالٹے کے جوس والے کی دربار میں حاضر ھو گٸے،جو زور زور سے آٹھ روپے گلاس ،آٹھ روپے گلاس،آٹھ روپے گلاس کی فلک شگاف سداٸیں لگا رھا تھا
چنانچہ ہم نے تین گلاس جوس کا آرڈر جاری فرمایا،ابھی جوس نما پانی کے  دو دو گھونٹ ھی بھرے  تھے کہ مجھے جوس فروش کی سدا میں ھلکا سا فرق محسوس ھوا غور کرنے پر پتہ چلا کہ وہ اب ساٹھ روپے گلاس ...ساٹھ روپے گلاس...کی سدا  بلند کر رھا تھا میرے ساتھ ساتھ شبیرے اور رشیدو کے چہرے کے تغیرات بھی تبدیل ھونے لگے،بہر حال میں نے بیس کا نوٹ نکالا اور اٹھارہ روپے بل اور دو روپے ٹپ دے کر روانہ ھونے ہی لگا تھا کہ اس بد بخت نے مجھے پیچھے کالر سے پکڑ لیا اور باقی ایک سو ساٹھ روپے کا مطالبہ رکھ دیا ،بڑی تو تکرار کے بعد چار پانچ بندے اکھٹے ھوٸے آخر سو روپیہ دے کر جان چھڑاٸ،
آگے آسمانی جُھولا حرکت میں تھا،رشیدو نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا،میں نے شبیرے کی طرف  شبیرے نے اثبات میں سر ھلایا ٹھیک پانچ منٹ بعد ہم جھولے کی پالکی کے اندر تھے،
تھوڑی دیر بعد جھولے نے حرکت شروع کی تو ہم سب کے جسم میں بھی برکت پیدا ھونا شروع ھوگٸ،جھولے کی پالکی  اوپر جاتی تو مزا آتا مگر جب نیچے آتی تو ناصرف پورے جسم میں سنسناہٹ شروع ھو جاتی بلکہ پیشاب نکلنا شروع ھو جاتا، آپ سب کو تو میرا پتہ ھی ھے میں کتنا ذہین ھوں ؟ لہذا میں نے اپنی ذھانت کو بروٸے کار لاتے ھوٸے منہ میں کپڑا ٹھونس کر آنکھیں موندھ لیں مگر شبیرے کی فلک شگاف چیخوں سے  پورا اوچ گونج اُٹھا،شبیرے نے پنگھوڑا رکوانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر فرد ِواحد کیلٸے باقی تمام لوگوں کا مزا کِرکرا نہیں کروایا جا سکتا تھا ،آخر کار  شبیرے نے پنگھوڑے والے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور پُر امن احتجاج کا مظاھرہ کرتے ھوٸے پالکی میں ھی پیشاب فرما دیا جو عین نیچے والی پالکی پر ابر کرم بن کر ٹپکنا شروع ھو گیا ،القصہ مختصر  پنگھوڑا اپنی  مدتِ گردش پوری کر چکا تھا،ہم نے رات کے اندھیرے کا بھر پور فاٸدہ اُٹھاتے ھوٸے وھاں سے چم پت ھو گٸے،پنگھوڑے سے سو گز دور آ کر اُلٹیاں کیں اور کینوں جوس اور” ممدو گھوٹے“ کو سپردِ خاک کیا اور واپسی کی راہ لی.......
واپس آتے ھوٸےچند فرلانگ پر ھمارا سامنا ایک بار  پھِر اُسی مالٹے جوس والے سے ھوا جو ایک بار پھر سدا لگا رھا تھا کہ.........آٹھ روپے گلاس....آٹھ روپے گلاس...آٹھ روپے گلاس.......
جاری و ساری ھے
باقی روداد تیسری قسط میں  ان شاء اللہ
 سدا خوش رھو اور میری طرح مسکراتے رھو....
دعا گو ملک اسلم ہمشیرا
مدرس ایلیمنڑی ککس
اوچشریف بہاولپور

Comments