Parhezgar ke leay safar Asan by Nabeela Gul


پرہیز گار کے لیے سفر آسان
ارے کہا ں ہو ۔۔۔۔آواز بھی نہیں دیتی زمیں نے کا لیا یا آسمان تمہے اٹھا گئی  ۔۔۔امی آرہی ہوں نا ایک تو آپ آواز میری نہیں سنتی ۔مریم کی ماں آوازیں دے دے کر تک چکی تھی لکین مجال ہے کے مریم سدھر تی ۔
میٹھی بول سے ویسے بھی لوگ اندھے ہوجاتے ہیں کچھ یوں حال مریم کا بھی تھا اپنے محلہ کے کو دل دے بیٹھی تھی نا جانے وو کونسا دن تھا کے کمبخت دل بھی اسی پے مر مٹ گیا ۔اب احمد اسکے کآل سے اور فون سے دل برداشتا ہو گیے تھے اگنور کر رہے تھے ۔
مریم کا چہرہ دن با دن دیا کی طرح   بھجتا جارہا تھا اسے تو دنیا بھر سے زیادہ یقین صرف اس چہرے پے تھا بھلا وو کیسے جھوٹا ہوسکتا تھا ۔
لکین احمد کی محبت تو صرف حواس کی آگ بھجا نی کے لیے تھی ۔ وہ  کہتے ہیں
کیسے دور جہالت میں جی رہے ہم ،یہاں آ دم کا بیٹا خوش ہوتا ہے ہوا کی بیٹی کو بے نقاب کر کے
انسان جب سب کچھ کھو دیتا ہے تب بھی اسکا دل توڑا ما یل ہوجاتا ہے رب کی طرف لکین صرف تبلیعغ  کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مریم دن با دن ماضی میں ڈوبتی جارہی تھی ۔مجال ہے کے کسی کو اپنے دل کے ٹوٹنے کی آہ بھی سناتی ۔بچپن میں ایک کھلونا ٹوٹتا تو سارا گھر سر پر ا ٹہا تی آج دل کے ٹھو ٹنے کی آواز تک نہیں آیی ۔ مریم کی دوست تقویٰ  جو علم کر چکی تھی نہایت پرہیز گار اور صلیقا مند تھی اسے درس دینے لگی اور یوں وہ عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر طے کرنے لگی۔ تقویٰ پہلے دن سے اسکو بہن کہتی تھی اور تقویٰ نے اسکو یہ بھی بتا دیا تھا کے تم نے غیر مرد سے رابطہ کیا گناہ کیا ہے لکین تم مایوس نا ہو اللہمعاف کرنے والا ذات ہے ۔ مریم کے غیر مرد سے رابطہ یہ گھر والو کو بھی پتا لگ چکا تھا کوئی بھی مریم سے بات کرنے کو تیار نا تھے لکین تقویٰ ہر حال میں اسکا ساتھ دے رہی تھی ۔ تقویٰ ہمیشہ کہتی اس کے گھر والو سے کے ہمیں گناہ سے نفرت کرنا چاہے نا کے گناہگار سے ۔
تقویٰ کے لہجے کا بہت زیادہ اثر مریم پے ہونے لگا صرف ایک بار تقویٰ کے چند لفظ اسکے دل کو یوں چوں گیے کے اللہتعالیٰ فرماتا ہے ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے اگر تو وہ کرے گا جو میری چاہت ہے تو میں وہ کرو گا جو تیری چاہت ہیں اور اگر تو وہ کرے گا جو تیری چاہت ہیں تو میں تمہے تمھارے چاہت کے پیچھے  تڑپاؤ گا اور اخر میں ہوگا وہی جو میری چاہت ہیں ۔ مریم کو معلوم تھا کے یہ واقع ٹھیک ہیں جتنی مریم قرآن اور دین کے قریب ہوتی گئی یوں وہ عشق مجازی کو بھولتی گئی اور عشق حقیقی کو اپنا تی رہی ۔
انسان بہت کچھ سوچتا ہیں کے زندگی سے بے سکونی اور بے چینی کیسے دور کرو جب کے زندگی میں سکون اور چین جن چیزوں سے ملتا ہیں وہ ہم کبھی سوچتے نہیں ۔آج کا زمانہ تو غیر مرد سے رابطہ رکنے میں سکون ڈھونڈ تا ہیں لکین اصل سکون تو یہ نہیں ہیں ۔انسان دو چیزوں سے بنا ہیں مٹی اور روح تب ہی تو انسان کی ضرورت مٹی سے پوری ہوتی ہیں روٹی کپڑا مکان ۔۔۔دوسری ضرورت تو ہماری پوری ہی نہیں ہوتی سہی ضرورت ۔دل خالی ہوتا ہے لکین بہت کم لوگ سمجھتے ہیں کے ہمارا دل خالی کیوں ہیں یہی بات تقویٰ نے مریم کو چند لفظو ں میں سکھا دیا کے انسان اگراللہکا ذکر کرتا دل سے تو روح کی غذا پوری ہوتی ہے ۔مریم اپنی پورانی سب یادیں صرف اس تبلیغ کی وجہ سے بھولتی گئی اور ڈپریشن سے آزاد ہوتی جارہی تھی ۔ انسان دنیا میں اتا ہے بند انکھو ں سے آغاز ہوجاتی ہیں دھیر ے دھیر ے دنیا کی رنگینیو ں میں ڈوب جاتا ہے پھر اللہجس کی اچھائی چاہتا ہیں اسکو دین کی سمهج عطا کرتا ہے ۔

Comments