"کتاب"
بقلم ظہیر آفتاب وادی سون
الکتاب نعم الجلیس فی الوحدہ
"کتاب"
العلم نور
علم نور ھے اب اس نور کو حاصل کرنے کےلیے یا تو استاد کے
سامنےزانوۓ
تملذ تہ کیے جاتے ہیں یا کتب بینی اور کتابوں کی ورق گرادنی کی جاتی ھے یعنی علم کے
حصول میں کتاب بنیادی کردار ادا کرتی ھے
بلاشبہ کتاب وہ بہترین شے ھے جو اپنے قارئین کو علم کی روشنی
عطا کرتی ہے۔
یہ تنہائ کی بہترین ساتھی ھے۔
علم دوست لوگ کتابوں سے محبت کرتے ہیں اور اپنی حیات مستعار
کے شب و روز کتب کا مطالعہ کرنے میں گزار دیتے ہیں۔
"سقراط
سے کسی نے پوچھا آپ کے پاس اتنا علم کیسے آیا ؟
سقراط نے اسے پکڑا اور گہرےپانی میں لے جا کر اسے ڈبکیاں
اور غوطے دینےشروع کردیے ـ
اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔لگتاجیسے ابھی سانس بند ھوئ اور
کام تمام ۔
سقراط نے پکڑ کر باھر نکالا
پوچھا
جب توں پانی کے اندر تھا تب تیری خواھش کیا تھی
کہنے لگا کہ سانس لینے کی شدید خواھش
سقراط نے کہا
جیسے اس لمحے تیری خواھش تھی کہ تجھے سانس ملے میری ھر لمحے
یہی خواھش ھوتی ھے کہ میں کچھ نیا سیکھ لوں "
بہرحال آمدم برسرمطلب:
ھر کتاب کی نوعیت مختلف ھوتی ھے اور اس سے استفادہ بھی متعلقہ
نوعیت کی طرح کا ھوتا ھے ۔
اگر دینی و اسلامی کتاب ھے تو وہ خدا اور اس کے پیامبر سے
ملاۓ گی
محدث کی قلم کاری ھو تو فرمان نبویہ کے راز سمجھاۓ
گی فقہ ھو تو مسائل کی گتھیاں سلجھاۓ
گی اصول کی کتاب ھوتو متسنبط مسائل کے در وا کرے گی۔
منطق ہو تو دلائل کے پردے
اٹھاۓ
گی۔
کسی فلسفی کی ذھنی اختراع ھے تو عقل کی کھڑکیاں کھولنے کی
سعی کرے گی اور خرد کی گھتیاں سلجھاۓ
گی
اگر مؤرخ کی قلم سے نکلی ھے تو تاریخ کا آئینہ دکھاۓ
گی اگر کسی عارف اور صوفی کے مزاج سے مرتب ھوئ ھو تو تصوف کی راھیں کھولے گی معرفت
کے طریق آشکارا کرے گی
اگر دنیوی علوم سے متعلقہ ھے تو اسی لحاظ کی افادیت اس میں
پنہاں ھو گی ۔
کتاب حکمت و معرفت کا گنجینہ ھوتی ھے۔جو لوگ شعور کی راھیں
عبور کرنے کے متمنی ہوتے ہیں وہ کتاب دوست ہوتے ہیں جن کی فطرت میں آگاہ طلبی کوٹ کوٹ
بھری ھوتی ھے وہ ھمہ وقت کتب خریداری کے خواھاں ھوتے ہیں وہ مکتبوں اور لائبریریوں
کی گرد جھاڑتے نظر آتے ہیں
جن کےمزاج میں علمی جستجو
پائ جاتی ھے وہ کتابوں کے مطالعہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناۓ
رکھتے ہیں۔ علم کے حقیقی متلاشی لوگوں کے ھاتھ کتابوں تک رسائ حاصل کرنے کے حیلے تراشتے
نظر آتے ہیں اور وہ بالیقین اپنےمزاج کی کتاب تک پہنچ بھی جاتے ہیں اور اپنی علمی تشنگی کی سیرابی کا
ساماں پیدا کرلیتے ہیں
جس کی جتنی طلب ھوتی ھے وہ
اسی قدربواسطہ کتب علم و عرفان کے اس نور سے
نواز دیا جاتا ھےیقیناً یہی لوگ
صاحب مطالعہ،تحقیق پسند اور علمی لگن شخصیت بن کر صفحہ ھستی
پر ابھرتے ہیں اور محققانہ دھرتی کے سینے پر گراں قدر علمی و ادبی خدمات سرانجام دیتے
ہیں
اور ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ کتاب ہی توھے جس نے انسان کو
بولنےکا سلیقہ دیا جس نے طرز کلام کا ڈھنگ عطا کیا جس سے بولنے والے کو آداب سخن کا
ڈھب ملا جس نے آدمی کو بتایا کہ کب کیا بولنا ھے کیوں اور کیسے بولنا ھے
اور یہ کتاب ھی کا کمال ھے
جس نے قلم کو صحیح رخ پہ چلنا سکھایا
جس نے لکھنے والے کو لکھت کے داؤ پیچ سکھاۓ
اور اسی کتاب ھی نے لکھاری کے قلم کو وہ زور بخشا جس نے قرطاس کے سینے پہ لفظوں کے
سحر کو اجاگر کر دکھایا۔
یہ کتاب ھی تو ھے جس
کی بدولت بو علی سینا،ابن رشد،ابن الہیثم اور ابن خلدون جیسےناموں کو آج تک تاریخ سنبھالے بیٹھی ھے اسی کتاب ھی کی بدولت ابن بطوطہ واسگوڈے گاما، فارابی کندی ،فردوسی حافظ
سعدی شیرازی،رومی، رازی اور غزالی جیسے عظیم لوگ آج تک علم
والوں کے سینوں میں دھڑکن بنے بستے ہیں ارسطو،افلاطون،
سقراط بقراط اور اقلیدس کو اسی کتاب نے ھی تیار کیا۔
اس میں کوئ شبہ نہیں کہ کتاب اجاڑ دماغوں میں علم کی شمعیں
روشن کر کے فلاح داریں کا ذریعہ ثابت ہوتی ھے۔ یہ اپنے پڑھنے والے کو اپنی جانب کھینچتی
ھے
قاری کوعلمی شاھراوں کا راھی
بنا کر اس کے دل میں محققانہ منزلوں کی ٹوہ
پیدا کرتی ھےاور مدبرانہ فکر کی مالک بناتی ھے۔
وسیع الظرفی، عالی دماغ بلند خیالی اور گہری سوچ اسی کتاب
ھی کے توسل سے حاصل ھوتی ھے۔
بلاشبہ کتابوں میں پوشیدہ ھوتے ہیں لاکھوں لؤلؤۓ
لالا
؎کوئ شانہ کہاں میسر تھا
میں نے رکھ دیا سر کتابوں پر
Comments
Post a Comment